سوال :
مفتی صاحب امید ہے آپ بخیریت ہونگے۔
ایک سوال عرض ہیکہ کسی تعمیراتی کام کی افتتاحی تقریب میں غیر ضروری طور پر غیروں کے طرز عمل پر موم بتی جلانا یا بھومی پوجن کرنا کیسا ہے؟ جبکہ ایسا کرنے والا آدمی خود ایک عالم دین اور مسلم حلیہ اختیار کرتا ہو، ایسا شخص شرک کا مرتکب ہوگا یا نہیں؟ براہ کرم شریعت کی روشنی میں مکمل جواب ارسال کیجئے۔
(المستفتی : عمیر انصاری، مسلم پورہ، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : کسی تعمیری کام وغیرہ کی ابتداء اور شروعات کے وقت ہندوؤں کے یہاں بھومی پوجن ہوتی ہے جس میں مخصوص طرز پر موم بتیاں جلاکر رکھی جاتی ہیں جو خالص ان کا مذہبی عمل ہے، لہٰذا اگر کوئی مسلمان معاذ اللہ برضا ورغبت اور قلبی بشاشت کے ساتھ یہ عمل انجام دے تو وہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔ اس صورت میں تجديدِ ایمان وتجديدِ نکاح کی ضرورت ہوتی ہے۔ البتہ اگر اس عمل کی عظمت دل میں نہ ہو اور دینِ اسلام کی پوری عظمت قلب میں موجود ہوتو اس پر کفر کا حکم تو نہیں ہوگا، لیکن یہ صورت بھی ناجائز اور حرام ہے جس کے لیے ندامت وشرمندگی کے ساتھ توبہ و استغفار اور آئندہ اس عمل سے باز رہنے کا عزم بالجزم کرنا ضروری ہے۔ لہٰذا سوال نامہ میں مذکور عالم صاحب کو خود اپنا جائزہ لے لینا چاہیے کہ انہوں نے کس جذبہ سے اس عمل میں حصہ لیا ہے؟ نیز انہیں اس کی وضاحت بھی کردینا چاہیے تاکہ کم پڑھے لکھے لوگ ان کے عمل کو دلیل نہ بنالیں جس کا وبال کسی نہ کسی درجہ میں ان پر بھی ہوسکتا ہے۔
نوٹ : بعض لوگ اس طرح کے اعمال کو انجام دینے کے بعد یہ دلیل دیتے ہیں کہ ملکی حالات خراب ہیں اگر ہم لوگ مذہبی رواداری میں اگر اس طرح کے کاموں کو انجام دے دیں تو اس کی گنجائش ہوگی اور برادران وطن بھی ہم سے خوش ہوں گے اور حالات سازگار ہوجائیں گے اور امن کی فضا قائم ہوجائے گی۔ ایسے لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ ایسا سمجھنا خام خیالی اور احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے، اس لیے کہ کفر آپ سے تب تک خوش اور راضی نہیں ہوگا جب تک آپ خود کفر نہ اختیار کرلیں۔ لہٰذا اس بات کا ہمیشہ خیال رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کو ناراض کرکے بندوں کو خوش نہیں کیا جاسکتا۔ اگر اللہ تعالیٰ کے احکامات کی نافرمانی کرکے بندوں کو خوش کرنے کی کوشش کی گئی تو انجام کار یہ ہوگا اللہ تعالیٰ تو ناراض ہوں گے ہی اسی کے ساتھ یہ لوگ بھی خوش نہیں ہوں گے۔ یعنی آخرت کے ساتھ ساتھ دنیا بھی برباد ہوکر رہے گی۔
وَلَنْ تَرْضَى عَنْكَ الْيَهُودُ وَلَا النَّصَارَى حَتَّى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدَى وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُمْ بَعْدَ الَّذِي جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ۔ (سورۃ البقرۃ، آیت : ١٢٠)
کما استفید من عبارۃ الہندیۃ يَكْفُرُ بِوَضْعِ قَلَنْسُوَةِ الْمَجُوسِ عَلَى رَأْسِهِ عَلَى الصَّحِيحِ إلَّا لِضَرُورَةِ دَفْعِ الْحَرِّ وَالْبَرْدِ وَبِشَدِّ الزُّنَّارِ فِي وَسْطِهِ إلَّا إذَا فَعَلَ ذَلِكَ خَدِيعَةً فِي الْحَرْبِ وَطَلِيعَةً لِلْمُسْلِمِينَ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ٢/٢٧٦)
ولو شبہ نفسہ بالیہود والنصاریٰ أی صورۃ أو سیرۃ علی طریق المزاح والہزل أي: ولوعلی ہذا المنوال کفر۔ (شرح الفقہ الأکبر،ص: ۲۲۷، ۲۲۸، فصل في الکفر صریحا وکنایۃ، یاسر ندیم- دیوبند)
وَإِنْ كَانَتْ نِيَّتُهُ الْوَجْهَ الَّذِي يُوجِبُ التَّكْفِيرَ لَا تَنْفَعُهُ فَتْوَى الْمُفْتِي، وَيُؤْمَرُ بِالتَّوْبَةِ وَالرُّجُوعِ عَنْ ذَلِكَ وَبِتَجْدِيدِ النِّكَاحِ بَيْنَهُ وَبَيْنَ امْرَأَتِهِ كَذَا فِي الْمُحِيطِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ٢/٢٨٣)
وقال علیہ السلام : من تشبہ بقوم فہو منہم وفي البذل: قال القاري أي : من شبہ نفسہ بالکفار مثلاً في اللباس وغیرہ أو بالفساق أو الفجار أو بأہل التصوف والصلحاء الأبرار فہو منہم أي في الإثم أو الخیر عند اللہ تعالی۔ (بذل المجہود: ۱۲/ ۵۹ باب في لبس الشہرة)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
26 جمادی الاول 1444
یہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔
جواب دیںحذف کریںالسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
جواب دیںحذف کریںبطور کلائینٹ مختلف علاقوں میں کام کی نگرانی کرتے وقت بھی ایسے حالات سے روبرو ہونا پڑتا ہے کہ ہماری موجودگی بھی ضروری ہوتی ہے اور اکثر اصرار بھی کیا جاتا ہے کہ پہلا ناریل آپ پھوڑیں۔ ایسے مواقع پر اکثر سہولت سے منع کر دیتا ہوں لیکن کبھی بسم اللہ، اللہ اکبر بآواز بلند کہہ کر پھوڑ دیا تو کیا حکم رہے گا؟
ماشاء اللہ
جواب دیںحذف کریںجزاکم اللہ خیرا و احسن الجزاء
مفتی صاحب آپ نے بڑے ہی اچھے انداز میں جواب ارسال فرما کر رہنمائی فرمائی.
اللہ پاک آپ کے علم میں مزید اضافہ فرمائے اور اپنی مدد حال شامل فرمائے اور نظرِ بد سے حفاظت فرمائے.
آمین یا رب العالمین