سوال :
محترم مفتی صاحب! درج ذیل تحریر واٹس اپ پر وائرل ہے۔ لہٰذا اس کی حقیقت بیان فرمائیں۔ اور یہ بھی بتائیں کہ اگر کوئی نکاح پڑھانے والا پچیس ہزار نکاح پڑھوائی مانگے تو کیا اس کا دینا ضروری ہوگا؟
اگر دلہن باکرہ (کنواری) ہے تو اس کا نکاح پڑھانے کا ہدیہ ایک دینار ہے، اور ثیبہ (بیوہ) ہو تو آدھا دینار۔
والمختار للفتوى أنه إذا عقد بكرا يأخذ دينارا وفي الثيب نصف دينار ويحل له ذلك هكذا قالوا، كذا في البرجندي۔ (فتاویٰ ہندیہ ج : ٣/ص : ٣٤٥)
دینار سونے کا ہوتا ہے، اور ایک دینار کا موجودہ وزن 4گرام 665 ملی گرام اور تین خمس ہے، جیسا کہ سیدی تاج الشریعہ نے فتاویٰ تاج الشریعہ میں بیان کیا ہے (ج:٨/ص :٧٥) تو آج کے بھاؤ سے ایک دینار کی قیمت تقریباً 25000 ہے، لہٰذا باکرہ (کنواری) کا نکاح پڑھانے کا ہدیہ 25000 ہوتا ہے، اور ثیبہ (بیوہ) کا نکاح پڑھانے کا ہدیہ 12500، اس سے کم رقم میں قاضی (آئمہ مساجد) صاحب نکاح پڑھاتے ہیں، تو یہ ان کا مسلمانوں پر کرم ہے۔
اماموں کو چاہئے کہ ہر حال میں یہ پیسے وصول کریں، تاکہ ڈی جے پر ناچنے والوں کو انکی اوقات پتہ چل سکے، جس دن آئمہ مساجد متحد ہو جائیں گے، قوم کی عقل ٹھکانے پر لگ جائے گی۔
(المستفتی : محمد مدثر، مالیگاؤں)
-----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صحیح بات یہی ہے کہ نکاح پڑھانے کی مخصوص مقدار میں اجرت لینا شرعاً متعین نہیں ہے۔ بلکہ یہ فریقین یعنی نکاح خواں اور لڑکے یا لڑکی والوں کی باہمی رضامندی پر ہے۔ لہٰذا یہ لوگ آپس میں جس مقدار پر بھی راضی ہوجائیں اس کا لین دین درست ہوگا خواہ یہ رقم ہزار دو ہزار ہو یا اس سے زیادہ۔
فتاوی ہندیہ میں جو یہ مسئلہ لکھا ہوا کہ کنواری کا نکاح پڑھانے کی اجرت ایک دینار اور بیوہ مطلقہ کا نکاح پڑھانے کی اجرت آدھا دینار ہے۔ وہ کوئی فرض، واجب یا سنت نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک مشورہ ہے۔ لہٰذا اگر کوئی نکاح خواں اتنی رقم کا مطالبہ کرتا ہے اور سامنے والے برضا ورغبت اتنی رقم دے دیتے ہیں تو شرعاً یہ معاملہ درست ہوگا۔ لیکن اگر سامنے والے اس پر راضی نہ ہوں تو پھر نکاح خواں کو اجرتِ مثل ملے گی، اور اجرت مثل وہ ہوتی ہے جو اُس وقت اُس علاقے میں رائج ہو، ہمارے شہر مالیگاؤں میں فی الحال (سال ٢٠٢٢ میں) نکاح خوانی کی اجرت سولہ سو سے دو ہزار کے درمیان چل رہی ہے، لہٰذا نکاح خواں کو اسی کے درمیان اجرت ملے گی۔
آپ کی ارسال کردہ تحریر کے اخیر میں جو بات لکھی ہے کہ ائمہ کو یہ رقم ہر حال میں وصول کرنا چاہیے، یہ بات درست نہیں ہے۔ کیونکہ معاملہ صرف انہیں کے ہاتھ میں نہیں ہے، بلکہ سامنے والے کی رضامندی بھی ضروری ہے۔ نیز یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ ہر شادی میں ناچ گانے اور فضول خرچی ہوتی ہو، بلکہ ایک بڑا طبقہ نکاح کے موقع پر بھی بہرحال کم سے کم اور ضروری اخراجات میں ہی اپنی حلال کمائی خرچ کرتا ہے۔
خلاصہ یہ کہ سوشل میڈیا پر وائرل یہ تحریر غلط پیغام دے رہی ہے۔ لہٰذا اس کا پھیلانا درست نہیں ہے۔ تاہم اتنی بات ضرور کہی جائے گی کہ نکاح کے موقع پر غیر ضروری اخراجات میں اپنا مال لگانے کے بجائے نکاح خواں، ائمہ مساجد و مؤذنین کی خدمت کرنا چاہیے جو ان کے لیے بلاشبہ دنیا وآخرت میں خیر وبرکت کا باعث بنے گا۔
وَالْمُخْتَارُ لِلْفَتْوَى أَنَّهُ إذَا عَقَدَ بِكْرًا يَأْخُذُ دِينَارًا وَفِي الثَّيِّبِ نِصْفَ دِينَارٍ وَيَحِلُّ لَهُ ذَلِكَ هَكَذَا قَالُوا، كَذَا فِي الْبُرْجَنْدِيِّ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ٣/٣٤٥)
الإجارۃ إذا کانت فاسدۃ وجب أجر المثل۔ (الفتاوی التاتارخانیۃ، زکریا ۱۵/ ۱۰۱، رقم : ۲۲۳۱۳)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
24 جمادی الاول 1444
جزاکم اللہ خیرا واحسن الجزاء
جواب دیںحذف کریں