سوال :
محترم مفتی صاحب! اکثر اجتماعات میں دیکھنے میں آیا ہے کہ جہری نماز میں امام صاحب مائیک کا استعمال نہیں کرتے، اور قرأت کی آواز دور تک نہیں پہنچ پاتی، مائیک پیچھے مؤذن صاحب لگائے ہوتے ہیں جس میں صرف اقامت اورتکبیر کی آواز آتی ہے۔ ایسا کیوں؟ کیا کوئی شرعی حکم ہے اس میں؟ وضاحت فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : عمران الحسن، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : لاؤڈ-اسپیکر جب تک ایجاد نہیں ہوا تھا اس وقت نماز کے لیے بڑے مجمع میں مقتدی حضرات تک آواز پہنچانے کا طریقہ یہی تھا کہ ایک سے زائد افراد تکبیر کہہ دیا کرتے تھے۔
پھر جب لاؤڈ-اسپیکر کی ایجاد ہوئی اور اس کا استعمال عام ہونے لگا تو نماز وغیرہ کے لیے بھی اسے استعمال کرنے کی بات آئی، لیکن شروعات میں اس کی کیفیت واضح طور پر سامنے نہ ہونے کی وجہ سے بعض مفتیان نے یہ فتوی دے دیا تھا کہ نماز میں لاؤڈ-اسپیکر کا استعمال درست نہیں، اس لیے کہ لاؤڈ-اسپیکر میں آنے والی آواز متکلم کی نہیں ہوتی بلکہ یہ آواز بازگشت ہے جو مشین کی آواز ہے۔ لہٰذا امام کے بجائے مشین کی اقتداء ہونے کی وجہ سے مقتدی حضرات کی نماز نہیں ہوگی۔ لیکن اس میں غلطی مفتیان کرام کی نہیں تھی بلکہ ٹیکنالوجی کے ان ماہرین کی تھی جنہوں نے لاؤڈ-اسپیکر کی کیفیت کو بالکل واضح طور پر مفتیان کرام کے سامنے پیش نہیں کیا۔ لہٰذا بعد میں جب اس سلسلے میں مزید تحقیق وجستجو ہوئی تو یہ بات واضح ہوگئی کہ لاؤڈ اسپیکر کی آواز بعینہ متکلم کی آواز ہے جو لاؤڈ اسپیکر کی وجہ سے پہلے سے زیادہ قوی ہوجاتی ہے یہ آواز آواز باز گشت نہیں ہے، لہٰذا لاؤڈ-اسپیکر کو نماز میں استعمال کرنا جائز اور درست ہے۔
اس سلسلے میں ہماری معلومات یہی ہے کہ تبلیغی جماعت کے احباب کا یہ موقف نہیں ہے کہ لاؤڈ-اسپیکر میں نماز نہیں ہوتی، اگر ایسا ہوتا تو مکبر کے لیے بھی لاؤڈ-اسپیکر کا استعمال ناجائز ہوتا۔ کیونکہ جو مسئلہ امام کے لاؤڈ-اسپیکر استعمال کرنے میں ہے وہی مسئلہ مکبر کے بھی لاؤڈ-اسپیکر استعمال کرنے پر باقی رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تبلیغی اجتماعات میں مکبر حضرات لاؤڈ-اسپیکر استعمال کرتے ہیں۔
درج بالا تفصیلات سے معلوم ہوا کہ نماز میں امام کا لاؤڈ-اسپیکر استعمال کرنا صرف جائز عمل ہے کوئی فرض یا واجب نہیں ہے۔ لہٰذا تبلیغی اجتماعات میں اگر امام لاؤڈ-اسپیکر استعمال نہ کرے تو اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے۔ تاہم مناسب یہی معلوم ہوتا ہے کہ جب مجمع زیادہ ہو جیسا کہ تبلیغی اجتماعات میں ہوتا ہے تو بذات خود امام کو لاؤڈ-اسپیکر کا استعمال کرلینا چاہیے، مکبر طے کرنے کا تکلف نہیں کرنا چاہیے۔ کیونکہ جہری نمازوں میں قرأت کی آواز مقتدی حضرات تک پہنچتی ہے تو ایک اطمینان کی کیفیت ہوتی ہے اور قرأت کی آواز نہ پہنچے تو ایک بے اطمینانی کی کیفیت ہوتی ہے۔ لہٰذا تبلیغی جماعت کے ذمہ داران کو اس پر غور کرنا چاہیے۔
والجہر أفضل في غیر ذلک؛ لأن العمل فیہ أکبر، ولأنہ یتعدي نفعہ إلی غیرہ، ولأنہ یوقظ قلب القارئ، ویجمع ہمہ إلی الفکر، ویصرف سمعہ إلیہ، ویطرد النوم ویزید النشاط۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ ۱۶؍۱۹۲)
والصغریٰ ربط صلاۃ المؤتم بالإمام بشروط عشرۃ: نیۃ المؤتم الاقتداء، واتحاد مکانہما، وصلا تہما، وصحۃ صلاۃ إمامہ، وعدم محاذاۃ إمرأۃ، عدم تقدمہ علیہ بعقبہ، وعلمہ بانتقالاتہ، وبحالہ من إقامۃ وسفر، ومشارکتہ فی الأرکان، وکونہ مثلہ أو دونہ فیہا وفی الشرائط۔ (در مختار مع الشامی بیروت ۲؍۲۴۲- ۲۴۴)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
21 جمادی الاول 1444
عمدہ معلومات
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ خیرا
جواب دیںحذف کریںاختلاف کے بعد نہجِ ثلاثہ کے اجتماعات میں تکبیر کہنے کا تکلف الحمدلله بند کردیا گیا ہے ۔
جواب دیںحذف کریں7620771621
جواب دیںحذف کریںMashallah bahut acchi jawab Diya hai aapane
جواب دیںحذف کریںJamaat ke muntazmeen ko ye baat batai shayad asar ho
جواب دیںحذف کریںبنگلہ والی مسجد میں آج بھی لاؤڈ-اسپیکر کا استعمال نہیں ہوتاصرف مکبرہی استعمال کرتا ہے
جواب دیںحذف کریںیہ صرف اور صرف ایک خبط اور اپنی اختراع پر مبنی اکابر پرستی کی مثال ہے۔
جواب دیںحذف کریںجمہور فقہہ سے ہٹ کر خود پسندگی والا عمل ہے
جواب دیںحذف کریںماشاء اللہ بہترین رہنمائی کی ہے آپ نے اللہ تعالی آپ کو بہترین جزائے خیر عطا فرمائے۔
جواب دیںحذف کریں