سوال :
حضرت جبرئیل علیہ السلام کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح قبض کرنے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کرنا۔ اس واقعے کی تحقیق درکار ہے۔
(المستفتی : وکیل احمد، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی روح قبض کرنے کے لیے ملک الموت کا حضرت جبریل علیہ السلام کے ساتھ آنا اور آپ سے روح قبض کرنے کی اجازت طلب کرنا اس سلسلے میں مختلف سندوں کے ساتھ مختلف مضامین ملتے ہیں، ان میں سے ایک میں مفصل واقعہ بھی بیان کیا گیا ہے جو مشکوہ میں بحوالہ دلائل النبوہ مذکور ہے، وہ واقعہ درج ذیل ہے۔
حضرت جعفر صادق ابن محمد رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے والد (حضرت باقر ) سے روایت کرتے ہیں کہ قریش میں سے ایک شخص ان کے والد حضرت علی زین العابدین ابن حسین (نبیرہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ ) کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضرت علی زین العابدین رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس سے کہا کہ کیا میں تمہارے سامنے رسول کریم ﷺ کی حدیث بیان کروں اس شخص نے کہا : ہاں ہمارے سامنے حضرت ابوالقاسم (محمد ﷺ ) کی حدیث ضرور بیان کیجئے ۔چنانچہ علی زین العابدین رحمہ اللہ علیہ نے بیان کیا جب رسول کریم ﷺ بیمار ہوئے تو حضرت جبرائیل علیہ السلام (عیادت کرنے اور پیغام الٰہی پہنچانے کے لئے ) آپ ﷺ کی خدمت میں بھیجا ہے اور یہ تعظیم وتکریم (جس بات کی صورت میں ہے وہ صرف ) آپ ﷺ کے لئے مخصوص ہے (اور وہ بات یہ ہے کہ ) اللہ تعالیٰ آپ ﷺ سے وہ چیز دریافت کرتا ہے جس کو وہ آپ ﷺ سے زیادہ جانتا ہے (کیونکہ ظاہر وباطن کون سی چیز اس سے پوشیدہ ہے ) تاہم وہ دریافت کرتا ہے کہ آپ ﷺ کہ آپ ﷺ اپنے کو کیسا پاتے ہیں یعنی آپ کا کیا حال ہے ؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا : جبرائیل علیہ السلام میں نے اپنے آپ کو مغموم پاتا ہوں اور اے جبرائیل علیہ السلام میں اپنے آپ کو مضطرب وپریشان پاتا ہوں حضرت جبرائیل علیہ السلام (یہ جواب لے کر چلے گئے اور ) پھر دوسرے دن آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور وہی الفاظ کہے جو پہلے دن کہے تھے ، نبی کریم ﷺ نے بھی جواب میں وہ بات کہی جو پہلے کہی تھی، تیسرے دن حضرت جبرائیل علیہ السلام پھر آپ ﷺ کی خدمت میں آئے اور وہی الفاظ کہے جو پہلے تھے ، نبی کریم ﷺ نے بھی جواب میں وہی بات کہی جو پہلے کہی تھی اور اسی دن یا اس کے بعد کسی اور دن حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ ایک اور فرشتہ بھی تھا جس کو اسمٰعیل کہا جاتا ہے اور ایسے ایک لاکھ فرشتوں کا افسر ہے جن میں ایک ایک فرشتہ ایک ایک لاکھ فرشتوں کا افسر ہے ، اس اسمٰعیل فرشتے نے آپ کی خدمت میں باریاب ہونے کی اجازت مانگی ، آنحضرت ﷺ نے اسمٰعیل فرشتہ کو باریابی کی اجازت دی اور پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے (کچھ لمحے توقف کے بعد) کہا کہ یہ موت کا فرشتہ (عزرائیل) بھی حاضر ہے اور باریابی کی اجازت چاہتا ہے، حالانکہ اس فرشتہ موت نے نہ تو کبھی آپ ﷺ سے پہلے کسی شخص سے اجازت مانگی ہے اور نہ کبھی آپ ﷺ کے بعد کسی شخص سے اجازت مانگے گا (یعنی یہ صرف آپ ﷺ کا اعزازوشرف ہے کہ اس کو آپ ﷺ سے اجازت مانگنے کی ضرورت ہوئی ہے) ورنہ دوسرے آدمیوں کے پاس تو اچانک پہنچتا ہے اور روح قبض کر لیتا ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اس کو اجازت دے دو چنانچہ حضرت جبرائیل نے فرشتہ موت کو اجازت سے آگاہ کیا اور اس نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر سلام عرض کیا (اور آپ ﷺ اپنی روح قبض کرنے کا حکم دیں تو قبض کرلوں اور اگر آپ یہ حکم دیں کہ میں آپ کو چھوڑ دوں گا آپ نے فرمایا : اے فرشتہ موت کیا تم (وہی) کروگے (جو میں تمہیں حکم دوں گا ) فرشتہ موت نے جواب دیا بیشک مجھے تو حکم ہی یہ دیا گیا ہے کہ آپ ﷺ کو اختیار دیدوں) اور آپ ﷺ جو کچھ فرمائیں اس کی اطاعت کروں۔ حضرت علی زین العابدین کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرشتہ موت کی یہ بات سن کر حضرت جبرائیل علیہ السلام کی طرف دیکھا (گویا ان سے مشورہ چاہا کہ بتاؤ مجھے کیا کرنا چاہے) حضرت جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا : اے محمد حقیقت تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کی ملاقات کے مشتاق ہیں آنحضرت ﷺ نے یہ سنا توبلاتامل فرشتہ موت سے فرمایا کہ : جس بات کا تم کو حکم دیا گیا ہے اس پر عمل کرو، چنانچہ فرشتہ موت نے آپ ﷺ کی پاک روح قبض کرلی۔ جب رسول کریم ﷺ کا وصال ہوگیا اور ایک تعزیت کرنے والا (اہل بیت کو تسلی دینے) آیا تو لوگوں نے گھر کے ایک گوشہ سے آتی ہوئی آواز سنی کہ کوئی شخص کہہ رہا ہے : اے اہل بیت اور وہ لوگ جو یہاں موجود ہیں تم پر سلامتی ہو۔ اللہ کی مہربانی اور اس کی برکتیں نازل ہوں، حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی کتاب یا اللہ کے دین میں ہر مصیبت کے وقت تسکین وتسلی کا سامان موجود ہے، اللہ تعالیٰ ہرہلاک ہونے والی چیز کا بدلہ عطاکرنے والا اور ہر فوت ہونے والی چیز کا تدارک کرنے والا ہے جب صورت یہ ہے تو اللہ کی مدد سے تقویٰ اختیار کرو، اس سے امید رکھو مصیبت زدہ حقیقت میں وہ شخص ہے؟ جو ثواب سے محروم کردیا گیا، حضرت علی نے کہا تم لوگ جانتے ہو (تعزیت وتسلی کے الفاظ کہنے والا) یہ کون شخض ہے؟ یہ حضرت خضر علیہ السلام ہیں۔
البتہ محققین علماء کی تحقیق اس سلسلے میں یہی ہے کہ یہ تمام روایات سخت ضعیف اور غیرمعتبر ہیں، کیونکہ ان کے روایوں میں جھوٹے اور حدیثیں گھڑنے والے راوی موجود ہیں۔ لہٰذا ان کا بیان کرنا درست نہیں ہے۔
[عن علي بن الحسين بن علي:] أن رجالا من قريشٍ دخلوا على أبيهِ عليّ بن الحُسَينِ فقال: ألا أحدّثكُم عن رسولِ اللهِ ؟ قالوا: بلى، حدثنا عن أبي القاسمِ، قال: لما مرضَ رسولُ اللهِ جاءهُ جبريلُ فقال: يا محمدُ أرسلنِي اللهُ ﷿ إليك تكْريما لكَ وتشريفا لكَ وخاصةً لكَ أسألك عمّا هو أعلمُ به منكَ، يقول: كيفَ يجدكُ؟ قال: أجدُنِي يا جبريلُ مغموما، وأجدنِي يا جبريلُ مكروبا. ثم جاءهُ اليومُ الثاني فقال لهُ ذلكَ. فردّ النبي كما ردهُ أولَ يومٍ. ثم جاء اليومَِ الثالثَ. فقال له كما قالَ أولَ يومٍ وردَّ عليهِ كما ردَّ عليهِ. وجاء معه ملكٌ يُقالُ له: إسماعِيلُ على مائةِ ألفِ ملك، كل منهُم على مائةِ ألفِ ملكٍ. فاستأذنَ عليه فسألَ عنهَ. ثم قال جبريلُ: هذا ملكُ الموتِ يستأذنُ عليكَ ما استأذنَ على آدميّ قبلكَ، ولا يستأذنُ على آدميّ بعدكَ. فقال رسولُ اللهِ ﵌: ائذنْ لهُ، فأذنَ لهُ، فسلّمَ، ثم قال له: يا محمدُ إنّ اللهَ ﷿ أرسلنِي إليكَ. فإن أمرتنِي أن أقبضَ روحكَ قبضتُه وإن أمرتنِي أن أتركَهُ تركتهُ. فقال: أو تفعلُ يا ملكَ الموتِ؟ قال: نعم، بذلك أُمرتُ أن أطيعكَ، فنظرَ النبي إلى جبريلَ، فقال جبريلُ: يا محمدُ، إنّ اللهَ ﷿ اشتاقَ إلى لقائكَ، فقال النبي ﵌ لملكِ الموتِ: اقبضْ كما أُمرتَ، فقبضَ روحهُ۔
ابن حجر العسقلاني (ت ٨٥٢)، فتاوى العقيدة ١/١١٠ • مرسل والقاسم ضعيف كذبه أحمد بن حنبل وخرج بأنه كان يضع الحديث۔فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
20 جمادی الاول 1444
ماشآءالله آپ کےتحقیقات سےمستفیدہوتارہتاہوں
جواب دیںحذف کریںجب یہ انتہائی ضعیف روایتیں ہیں تو آپ نے تفصیلا اسکا ذکر ہی کیوں کیا؟
جواب دیںحذف کریںاس لیے کہ کوئی بیان کرے تو اس جواب کو پڑھنے والے سمجھ جائیں۔ ☺️
حذف کریںSaner
جواب دیںحذف کریں