سوال :
محترم مفتی صاحب! ایک بات بچپن میں دوستوں سے سنتے تھے کہ جو شخص خودکشی کرلیتا ہے اس کی روح بھٹکتی رہتی ہے۔ اس کیا حقیقت ہے؟ برائے مہربانی قرآن و حدیث کی روشنی میں بیان فرمائیں۔
(المستفتی : محمد ہارون، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : قرآن و حدیث سے جو بات ثابت ہوتی ہے وہ یہی ہے کہ مرنے کے بعد نیک لوگوں کی ارواح مقام عِلِّيِّينْ میں اور بُرے لوگوں کی روحیں مقام سِجِّیْنْ میں ہوتی ہیں، یعنی علیین نیکوں اور سجین بروں کا ٹھکانہ ہے۔ خواہ ان کی موت طبعی طور پر ہوئی ہو یا انہوں نے خودکشی کی ہو۔
علیین اور سجین یہ دونوں مقامات کس جگہ ہیں؟ اس کے متعلق حضرت برا بن عازب رضی اللہ عنہ کی طویل حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ سجین ساتویں زمین کے نچلے طبق میں ہے اور علیین ساتویں آسمان میں عرش کے نیچے ہے۔ (مسند احمد)
معلوم ہوا کہ خودکشی کرنے والوں کی روح دنیا میں بھٹکتی رہتی ہے بالکل باطل عقیدہ ہے جو قرآن مجید اور احادیث مبارکہ کے خلاف ہے۔ یہ ہندوانہ اور جاہلانہ عقیدہ ہے جس کا ترک کرنا ضروری ہے۔
كَلَّا إِنَّ كِتَابَ الْفُجَّارِ لَفِي سِجِّينٍ۔ (المطففین : ۷) كَلَّا إِنَّ كِتَابَ الْأَبْرَارِ لَفِي عِلِّيِّينَ۔ (المطففین : ۱۸) قلنا وجہ التوفیق : أن مقر أرواح المومنین فی علیین أو فی السماء السابعة ونحو ذلک کما مر ومقر أرواح الکفار فی سجین۔ (مظہری : ۱۰/ ۲۲۵)
وقال کعب : أرواح الموٴمنین في علیین في السماء السابعة وأرواح الکفار في سجین في الأرض السابعة تحت جند إبلیس۔ (کتاب الروح، المسئلة الخامسة عشرة، این مستقر الأرواح ما بین الموت إلی یوم القیامة)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
27 ربیع الآخر 1444
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں