سوال :
ممبئی میونسپل کارپوریشن اسکول میں پڑھنے والی ہر امیر غریب طالبات کو بی ایم سی فکسڈ ڈپازٹ (پوسٹ آفس میں اکاؤنٹ کھول کر) طالبات کو آٹھویں جماعت پاس کرنے پر 5000 روپے فی طالبہ کے اکاؤنٹ میں جمع کرتی ہے۔ بچی کی عمر جب 18 سال مکمل ہونے پر وہ پیسہ نکالنا ہوتا ہے۔ اس رقم کے ساتھ میں سود کی رقم بھی ملتی ہے طالبات یا سرپرست کا اس رقم کا استعمال کرنا کیسا ہے؟ بہت ساری طالبات واقعی بہت غریب ہوتے ہیں، ایسی صورت میں شریعت کا کیا حکم ہے؟ جواب مرحمت فرما کر شکریہ کا موقع دیں۔
(المستفتی : قاری داؤد، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورتِ مسئولہ میں چونکہ پانچ ہزار کی رقم طالبات کے قبضہ میں دیئے بغیر BMC اسے فکس ڈپازٹ کردیتی ہے پھر سود کے نام سے اس میں اضافہ ہوتا ہے، تو BMC اگرچہ اس کا نام سود رکھتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس پر سود کی تعریف صادق نہیں آتی ہے نہ ہی طالبات کا BMC کے ساتھ کوئی سودی معاملہ ہوا ہے۔ اس لیے سود اسے کہا جاتا ہے جب کوئی شخص اپنا مال کسی کو قرض دے یا امانت کے طور پر رکھوائے اور واپسی کے وقت اس سے زائد وصول کرے۔ چنانچہ مسئولہ صورت میں جو رقم فکس ڈپازٹ کی گئی وہ بھی بمبئی کارپوریشن کی، پھر جو سود کے نام سے دی گئی وہ بھی بمبئی کارپوریشن کی ہے۔ لہٰذا یہ سب بمبئی کارپوریشن کی طرف سے طالبات کے لیے امداد، عطیہ اور ہدیہ ہے، جس کا لینا اور ذاتی استعمال کرنا جائز ہے خواہ طالبات امیر ہوں یا غریب، اس لیے کہ یہ اسکیم امیر غریب سب کے لیے ہے۔ اضافی رقم کو سود نہیں کہا جائے گا۔
کل قرض جر منفعۃ فہو ربا۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ، ۱۰؍۶۴۸ بیروت)
عن جابر بن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہ قال: لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم آکل الربوا ومؤکلہ وکاتبہ وشاہدیہ، وقال: ہم سواء۔ (صحیح مسلم ۲؍۷۲ رقم : ۱۵۹۸)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
02 ربیع الآخر 1444
جزاک اللہ خیرا
جواب دیںحذف کریںآپ کی بہتر رہنمائی کے لیے شکر گزار ہیں.
جواب دیںحذف کریں