سوال :
مفتی صاحب ایک حدیث میں ہے وَالْاَرْوَاحُ جُنُوْدٌ مُجَنَّدَۃٌفَمَا تَعَارَفَ مِنْھَااِئْتَلَفَ وَمَاتَناَکَرَمِنْھَااِخْتَلَفَ۔
اس حدیث شریف کا مطلب کیا ہے؟
براہ کرم شرح و بسط کے ساتھ بیان کیجیئے۔
(المستفتی : مسیّب رشید خان ملی، جنتور)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں آپ نے جس حدیث شریف کے الفاظ نقل کیے ہیں وہ بخاری شریف سمیت متعدد کتب احادیث میں مذکور ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تمام ارواح کے لشکر ایک جگہ جمع تھے، بس جس جس روح میں وہاں پہچان ہوگئی یہاں بھی ان میں باہم دوستی ہوگی اور جس جس میں وہاں پہچان نہ ہوئی، تو یہاں بھی بیگانگی رہے گی۔
جمہور علماء کا قول یہ ہے کہ دنیا میں اب تک جتنے اجسام پیدا ہو چکے ہیں یا قیامت تک جتنے پیدا ہوں گے ان سب کی روحین اپنے جسمانی وجود سے بھی بہت پہلے پیدا کی جا چکی تھیں جو عالم ارواح میں جمع ہیں اور دنیا میں جب کسی روح کا جسم پیدا ہوتا ہے تو وہ روح اس جسم میں بھیج دی جاتی ہے چنانچہ ابتداء خلقت میں اور روز ازل اللہ نے اپنی ربوبیت کا عہد اقرار کرنے کے لئے جب پوری کائنات انسانی کی روحوں کو چیونٹیوں کی صورت میں جمع کیا تو اس وقت وہاں جو روحیں آپس میں ایک دوسرے سے مانوس و متعارف ہوئیں اور جن روحون کے درمیان صفات کی مناسبت اور موانست پیدا ہوئی یا جو روحیں آپس میں نامانوس ہو چکی اور جن روحوں کے درمیان اختلاف و تفرقہ رہا وہ دنیا میں بھی اپنے اجسام میں آنے کے بعد آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ محبت و موانست ایک دوسرے کی صفات سے مناسبت و مشابہت رکھتے ہیں، لہٰذا جیسے نیک لوگ اور اچھے ہوتے ہیں وہ نیک اور اچھے لوگوں سے محبت تعلق رکھتے ہیں اور جو لوگ فاسق اور بدکار ہوتے ہیں وہ فاسقوں اور بدکاروں سے محبت تعلق رکھتے ہیں یا جو لوگ اس دنیا میں آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ اختلاف و عناد رکھتے ہیں جیسے نیک لوگ برے لوگوں سے اجتناب کرتے ہیں اور برے لوگ نیک لوگوں سے اختلاف کرتے ہیں تو وہ دراصل اپنی روحوں کے ازلی اتحاد و موانست یا اختلاف کا مظہر ہیں روز ازل جن روحوں میں محبت و موانست تھی ان کے درمیان دنیا میں بھی محبت و موانست ہے اور جن روحوں میں وہاں اختلاف تھا وہ یہاں بھی اختلاف و عناد رکھتے ہیں۔ جاننا چاہیے کہ روحوں کے درمیان جو روز ازل جو تعارف و تعلق پیدا ہو گیا تھا اس کا ظہور دنیا میں الہام الٰہی کے سبب ہوتا ہے بایں طور کہ جب روحیں اس دنیا میں اپنے جسموں میں آتی ہیں تو اللہ ان کی وہاں روز ازل کی محبت کے سبب یہاں دنیا میں بھی ان لوگوں کے دل میں محبت ڈال دیتا ہے۔ (مظاہر)
خلاصہ اس حدیث شریف کا یہی ہے کہ جو کیفیت روحوں کی عالمِ ارواح میں ہوگی وہی کیفیت جسم ملنے کے بعد دنیا میں بھی ہوگی۔ لہٰذا عالمِ ارواح میں جس سے دوستی، محبت اور تعلق ہوگا ان سے دنیا میں بھی رابطہ ہوگا اور جن سے دشمنی، نفرت اور اجنبیت ہوگی ان سے دنیا میں بھی دوری ہوگا۔
عَنْ عَمْرَةَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ الْأَرْوَاحُ جُنُودٌ مُجَنَّدَةٌ فَمَا تَعَارَفَ مِنْهَا ائْتَلَفَ وَمَا تَنَاكَرَ مِنْهَا اخْتَلَفَ۔ (صحیح البخاری، رقم : ٣٣٣٦)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
28 ربیع الاول 1444
اچھی معلومات
جواب دیںحذف کریں