سوال :
مفتی صاحب سوال یہ تھا کہ زید کے انتقال کے بعد اس کے وارثین میں صرف اس کی بیوی اور ایک لڑکی ہے اور زید کے پانچ بھائی بھی ہیں تب کیا ترکہ میں بھائیوں کا بھی حصہ ہوگا؟ جواب مرحمت فرمائیں۔
(المستفتی : محمد سالک، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : مرحوم زید کے ترکہ سے سب پہلے اس پر اگر کوئی قرض ہوتو وہ ادا کیا جائے گا، اس کے بعد کوئی وصیت ہوتو تہائی مال سے وصیت پوری کی جائے گی۔ اس کے بعد جو مال بچے گا اس کے 40 حصے کیے جائیں گے اور ذیل کے مطابق وارثین میں تقسیم ہوں گے۔
مرحوم زید کی بیوی کو ایک بیٹی کی موجودگی میں کل مال کا آٹھواں حصہ یعنی 05 حصے ملیں گے۔
مرحوم زید کی کوئی اولاد نرینہ نہیں ہے، صرف ایک بیٹی ہے تو اسے کل مال کا نصف یعنی 20 حصے ملیں گے۔
مرحوم زید کی کوئی اولاد نرینہ یا والد حیات نہیں ہیں، لہٰذا مرحوم زید کے بھائی عصبہ ہوں گے اور بقیہ مال ان کے درمیان برابر برابر تقسیم ہوگا۔ لہٰذا ہر بھائی کو تین تین حصے ملیں گے۔
قال اللہُ تعالیٰ : فَاِنْ کَانَ لَکُمْ وَلَدٌ فَلَہُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَکْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِیَّْۃٍ تُوْصُوْنَ بِہَا اَوْ دَیْنٍ۔ (سورۃ النساء، جزء آیت : ۱۲)
وقال تعالیٰ : وَاِنْ کَانَتْ وَاحِدَۃً فَلَہَا النِّصْفُ۔ (النساء، جزء آیت: ۱۱)
وقال تعالیٰ : وَاِنْ کَانُوْا اِخْوَۃً رِّجَالاً وَنِسَآئً فَلِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ۔ (سورۃ النساء، جزء آیت : ۱۷۶)
الْعَصَبَاتِ : وَهُمْ كُلُّ مَنْ لَيْسَ لَهُ سَهْمٌ مُقَدَّرٌ وَيَأْخُذُ مَا بَقِيَ مِنْ سِهَامِ ذَوِي الْفُرُوضِ وَإِذَا انْفَرَدَ أَخَذَ جَمِيعَ الْمَالِ، كَذَا فِي الِاخْتِيَارِ شَرْحِ الْمُخْتَارِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ٦/٤٥١)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
08 صفر المظفر 1444
السلام علیکم محترم ۔۔۔۔١) زید کے انتقال کے بعد اس کی تین بیٹیاں ہیں اور ایک بیوی ہے جبکہ والدین حیات ہیں اور تین بھائی اور تین بہنیں بھی ہیں تو ترکہ کی تقسیم کیسے ہوگی؟
جواب دیںحذف کریں٢) ہندہ کے انتقال کے بعد اس کی تین بیٹیاں ہیں اور ایک شوہر ہے جبکہ والدین حیات ہیں اور پانچ بھائی ایک بہن بھی ہے تو ترکہ کی تقسیم کیسے ہوگی؟
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
حذف کریںاس واٹس اپ نمبر 9270121798 پر رابطہ فرمائیں