سوال :
مفتی صاحب! قرآن مجید کی قسم کھا سکتے ہیں یا نہیں؟ اور اگر کسی نے قرآن کی قسم کھاکر توڑ دی تو اس کفارہ کیا ہوگا؟ جواب عنایت فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : محمد اسلم، چالیسگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : غیراللہ کی قسم کھانا جائز نہیں ہے، اس لیے قرآن کریم کی قسم کھانا بھی منع ہے۔ لیکن چونکہ قرآن خود کلام اللہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی ذات سے نکلا ہے، لہٰذا اگر کوئی اس کی قسم کھالے (یعنی ایسا کہے کہ میں قرآن کی قسم کھاتا ہوں آئندہ یہ کام نہیں کروں گا) تو یہ قسم منعقد ہوجاتی ہے اور اس کے خلاف کرنے کی صورت میں قسم کا کفارہ ادا کرنا واجب ہوتا ہے۔
قسم کا کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو دو وقت پیٹ بھر کھانا کھلائے یا ان کو پہننے کے لئے ایک ایک جوڑا دے، یا ایک غلام آزاد کرے اور اگر دس مسکینوں کو دو وقت پیٹ بھر کھانا کھلانے یا ایک ایک جوڑا دینے اور غلام آزاد کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا ہو تو مسلسل تین دن روزے رکھے۔ اگر الگ الگ کرکے تین روزے رکھے تو کفارہ ادا نہیں ہوگا۔ اگر دو روزے رکھنے کے بعد درمیان میں کسی عذر کی وجہ سے ایک روزہ چھوٹ گیا تو اب دوبارہ تین روزہ رکھنا ہوگا۔
قسم کے کفارہ میں دس مسکینوں کو کپڑے پہنانا یا دس مسکینوں کو دو وقت کھانا کھلانا ہے، البتہ گھر میں کھانے کا انتظام نہ ہونے کی صورت میں دس مسکینوں کو دو وقت کے کھانے کی قیمت ادا کرنے کی شرعاً اجازت ہے، اسی کے ساتھ اس کا بھی خاص خیال رکھا جائے کہ مالی کفارہ ادا کرنے کی استطاعت رکھتے ہوئے روزہ رکھ کر کفارہ ادا کرنا جائز نہیں ہے۔
کفارہ ادا کرنے کی آسان شکل یہ ہے کہ الگ الگ دس مسکینوں کو دونوں وقتوں کے کھانے کا پیسہ دیدیا جائے اور اللہ تعالٰی کو راضی کرنے کے لیے کثرت سے ذکر و استغفار کیا جائے اور اللہ تعالٰی سے مغفرت کی امید بھی رکھی جائے۔
(لَا) يُقْسَمُ (بِغَيْرِ اللَّهِ تَعَالَى كَالنَّبِيِّ وَالْقُرْآنِ وَالْكَعْبَةِ) قَالَ الْكَمَال : وَلَا يَخْفَى أَنَّ الْحَلِفَ بِالْقُرْآنِ الْآنَ مُتَعَارَفٌ فَيَكُونُ يَمِينًا۔ (شامی : ٣/٧١٢)
قال اللہ تعالیٰ : فَکَفَّارَتُہُ اِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاکِیْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَہْلِیْکُمْ اَوْ کِسْوَتُہُمْ اَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلَاثَةِ۔ (سورہ مائدہ، آیت : ۸۹)
وإن شاء أطعم عشرۃ مساکین کالإطعام فی کفارۃ الظہار۔ (ہدایۃ، الأیمان، باب ما یکون یمینا و مالایکون یمینا، ۲/۴۸۱)
وَلَوْ غَدَّى مِسْكِينًا وَأَعْطَاهُ قِيمَةَ الْعِشَاءِ أَجْزَأَهُ، وَكَذَا إذَا فَعَلَهُ فِي عَشَرَةِ مَسَاكِينَ۔ (شامی : ٣/٧٢٦)
(وَإِنْ عَجَزَ عَنْهَا) كُلِّهَا (وَقْتَ الْأَدَاءِ) .... (صَامَ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ وِلَاءً)۔ (شامی : ٣/٧٢٧)
أو إطعام عشرۃ مساکین، قال فی الشامیۃ: وفی الإطعام إما التملیک أو الإباحۃ فیعشیہم ویغدیہم (إلی قولہ) وإذا غدی مسکینا وعشی غیرہ عشرۃ أیام لم یجزہ لأنہ فرق طعام العشرۃ علی عشرین کما إذا فرق حصۃ المسکین علی مسکینین (وقولہ تحقیقا أو تقدیراً) حتی لو أعطی مسکینا واحدا فی عشرۃ أیام کل یوم نصف صاع یجوز۔ (شامی : ۵/۵۰۳)
ویجوز دفع القیمۃ … ولو غداہم و عشاہم فی یوم واحد أو عشاہم فی یوم آخر أو غداہم فی یومین أو غداہم و أعطاہم قیمۃ عشائہم الخ۔ (تاتارخانیۃ ۶/۳۰۲-۳۰۳، رقم: ۹۴۳۶)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
08 صفر المظفر 1444
8292411056
جواب دیںحذف کریں