سوال :
مفتی صاحب! مسئلہ اسطرح سے ہے کہ ایک آدمی کی چار اولاد ہیں، ۲ لڑکے ۲ لڑکی۔ اس آدمی کی جو ملکیت ہے وہ صرف ایک بیٹے کو وصیت کردی اسطرح سے کہ میرے مرنے کے بعد میری جائداد کا مالک صرف فلاں بیٹا ہی رہے گا، دوسرے کوئی نہیں۔ تو کیا وہ آدمی جس نے وصیت کی وہ گناہ گار ہے؟ اور کیا اس کی وصیت کو نا مانتے ہوئے چاروں کو حصہ دیا جائے گا جس طرح سے ہوتا ہے۔ اسی طرح سے آدمی کی جگہ عورت ہو تو کیا حکم ہوگا؟ شریعت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں بڑی مہربانی ہوگی۔
(المستفتی : شاہد بھائی، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : شریعتِ مطہرہ میں وصیت وارثین کے حق میں قابلِ قبول نہیں ہے جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حجۃ الوداع کے سال اپنے خطبہ میں یہ ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ نے ہر حقدار کو اس کا حق دیے دیا ہے، لہٰذا وارث کے لئے وصیت نہیں ہے۔ یعنی وصیت غیرِ وارث کے لیے ہوتی ہے، کیونکہ وارث کا حق تو منجاب اللہ مقرر ہوچکا ہے۔
پس اگر کوئی مرد یا عورت اپنی زندگی میں اس طرح کہہ دے کہ میرے مرنے کے بعد میری جائداد صرف فلاں بیٹے یا بیٹی کو دے دی جائے جیسا کہ سوال نامہ میں مذکور ہے تو ایسا کہنا شرعاً درست نہیں ہے۔ اور نہ ہی اس پر عمل کیا جائے گا، بلکہ مرحوم یا مرحومہ کی جائداد تمام اولاد کے درمیان اس طرح تقسیم ہوگی کہ لڑکوں کو دو دو حصے ملیں گے اور لڑکیوں کو ایک ایک حصہ ملے گا۔
عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي خُطْبَتِهِ عَامَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ : إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى قَدْ أَعْطَى لِكُلِّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ، فَلَا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ۔ (سنن الترمذی، رقم : ٢١٢٠)
ولا تجوز لوارثہ لقولہ علیہ السلام : إن ﷲ أعطی کل ذي حق حقہ، ألا لاوصیۃ للوارث؛ ولأنہ یتأذی البعض بإیثار البعض، ففي تجویزہ قطیعۃ الرحم، ولأنہ حیف بالحدیث الذي رویناہ۔ (ہدایۃ، کتاب الوصیۃ، ۴/ ۶۵۷)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
01 ربیع الاول 1443
ماشاءالله
جواب دیںحذف کریںJi
جواب دیںحذف کریںماشاءاللہ
جواب دیںحذف کریںجزاکم اللہ خیرا و احسن الجزاء
جواب دیںحذف کریںMashallah
جواب دیںحذف کریں