✍️ مفتی محمد عامر عثمانی ملی
قارئین کرام! ایک مضمون سوشل میڈیا پر کافی وائرل ہے جس کا عنوان ہے روزآنہ دو۔ اس تحریر میں مضمون نگار نے مولانا عمرین صاحب کی ایک میٹنگ جو انصار جماعت خانہ میں کئی سال پہلے ہوئی تھی جس کی خبر کسی نے ابھی وائرل کردی ہے اس کا حوالہ دے کر یہ لکھا ہے کہ مالیگاؤں تعلقہ میں 87 لڑکیوں نے غیرمسلموں سے شادی کرلی ہے۔ اس خبر کو انہوں نے تازہ سمجھ لیا ہے۔ اور انہوں نے معلوم نہیں کہاں سے یہ بات بھی لکھ دی ہے کہ چند دنوں میں مالیگاؤں کی 19 لڑکیوں نے مقامی کورٹ میں غیرمسلموں کے ساتھ نکاح کرنے اور مذہب تبدیل کرنے کی عرضی بھی دی ہے۔
بندے نے جیسے ہی یہ مختصر سا مضمون ایک گروپ میں پڑھا تو فوراً اس کی تردید کی۔ اور لکھا کہ مضمون نگار کو بڑی غلط فہمی ہوئی ہے۔ پھر مضمون نگار سے فون پر بھی بات بھی کی تو انہوں نے کہا تھا کہ اس کی وضاحت کردیں گے۔ لیکن اب تک کوئی وضاحت آئی نہیں ہے۔ جبکہ ان کا مضمون دوسرے شہروں کے گروپ میں بھی گردش کررہا ہے جس سے شہر کی نیک نامی پر بڑا حرف آرہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شہر اور بیرون شہر کے متعدد افراد نے بندے سے اس کی تحقیق بھی طلب کی ہے جس کی وضاحت کے لیے یہ مضمون لکھا جارہا ہے تاکہ اس غلط فہمی کا ازالہ ہو اور صحیح بات لوگوں کے سامنے آجائے۔
مالیگاؤں تعلقہ کی 87 لڑکیوں کے غیرمسلموں کے ساتھ شادی والی خبر 2016/2017 کی ہے۔ اور وہ بھی صرف مالیگاؤں تعلقہ کی بات نہیں ہے۔ مالیگاؤں کے تعلقہ کے علاوہ دیگر تعلقوں کو بلکہ اطراف کے دیگر اضلاع کو ملاکر یہ تعداد بنی ہے۔ لہٰذا اسے صرف مالیگاؤں تعلقہ سے جوڑنا بالکل غلط ہے۔ اسی طرح مالیگاؤں میں چند دنوں میں 19 لڑکیوں کے غیرمسلموں کے ساتھ شادی اور مذہب تبدیل کرنے والی خبر بالکل بے بنیاد ہے۔ مقامی کورٹ میں ایسی کوئی عرضی نہیں دی گئی ہے۔ اس کی تحقیق وکلاء اور اس شعبہ میں معلومات رکھنے والے افراد سے کی جاسکتی ہے۔ ان دنوں مقامی کورٹ میں شادی کی دو عرضیاں دی گئی ہیں وہ بھی غیرمسلموں کی ہیں جسے متعلقہ ویب سائٹ پر دیکھا جا سکتا ہے۔
معزز قارئین! شہر عزیز مالیگاؤں جیسا بھی ہے لیکن یہاں حالات اس حد تک خراب نہیں ہوئے ہیں کہ یہاں کی بچیاں روزآنہ دو کی تعداد میں معاذ اللہ غیرمسلموں کے ساتھ نکاح کرکے ان کا مذہب بھی قبول کرلیں۔
مسلم بچیوں کا غیرمسلموں سے نکاح کرکے ان کا مذہب قبول کرلینا یہ انتہائی سنگین اور حساس معاملہ ہے۔ اس سلسلے میں کسی بھی طرح کی خبروں کو بہت تحقیق کے بعد شیئر کرنا چاہیے، کیونکہ اس طرح کی خبروں سے خود ہمارے درمیان احساس کمتری اور کم ہمتی پیدا ہوگی اور غیروں کو حوصلہ ملے گا۔ ویسے بھی شریعت کا ضابطہ ہے کہ کسی بھی خبر کو بغیر تحقیق کے آگے نہیں بڑھانا چاہیے، سنی سنائی باتوں کو بغیر تحقیق کے آگے بڑھا دینے والے کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ایسا شخص جھوٹا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کے ایمان کی حفاظت فرمائے اور ہم کو کماحقہ اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
" لقال شاء من شاء " سوشل میڈیا کے اس دور میں تحقیقات کا مزاج اب قدرے رہ چکا ہے۔۔۔اللہ آپ کو جزائے خیر عطافرمائے کہ صحیح صورت حال سے آپ نے آگاہ فرمایا، اللہ پاک کفر کی طرف لوٹنا مسلمانوں کو ایسا ناگزیر کرے جیسا وہ آگ میں ڈالے جانے کو ناپسند کرتے ہیں
جواب دیںحذف کریںجزاک الله خیرا کثیرا کثیرا
جواب دیںحذف کریں