سوال :
محترم مفتی صاحب! عموماً دیکھا گیا ہے کہ لڑکی کے گھر والے لڑکی کی سسرال میں کھانے کی دعوت قبول کرنے سے احتراز کرتے ہیں کہتے ہیں کہ بزرگ اِسے معیوب سمجھتے ہیں۔کیا اِس پرہیز کی کوئی شرعی وجہ بھی ہے؟ اور کیا اللہ کے رسول صلی اللّٰہُ علیہ وسلّم، یا صحابہ کرام کے یہاں بھی ایسی کوئی روایت رہی ہے۔
(المستفتی : ڈاکٹر خورشید عالم، پونہ)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : کسی کی آمدنی کا اکثر حصہ حرام نہ ہوتو اس کی دعوت قبول کرنا چاہیے خواہ لڑکی کے سسرال والے ہوں یا اور کوئی رشتہ دار۔ اگر کوئی عذر ہوتو اچھے انداز میں معذرت کرلینا چاہیے۔
لڑکی کے سسرال میں کھانے پینے کو ایک طبقہ معیوب سمجھتا ہے اور اس بات میں کسی نہ کسی درجہ حقیقت بھی ہے کہ اکثر لڑکی کے سسرال میں لڑکی والوں کا کھانا پینا ہلکے پن کو ظاہر کرتا ہے۔ لیکن یہ بات صرف لڑکی والوں کے لیے نہیں ہے بلکہ لڑکے والوں کا بھی اکثر لڑکے کی سسرال میں کھانا پینا غیرمناسب بات ہے۔ لیکن یہ نہ سمجھا جائے کہ شرعاً بھی اس طرح کی کوئی ممانعت ہے۔ البتہ کبھی کبھار کسی اہم موقع پر کھانا پینا ہوتو حرج نہیں۔ کسی بھی موقع پر سمدھیانے میں کھانے پینے سے پرہیز کرنا غلو ہے جو شرعاً پسندیدہ عمل نہیں ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے لڑکی کی سسرال میں کھانے پینے یا پرہیز وغیرہ کی بات نہیں ملتی۔ لہٰذا اس میں کسی بھی پہلو کو یعنی لڑکی کے سسرال میں کھانے یا نہ کھانے کو سنت نہ سمجھا جائے۔
عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِذَا دُعِيَ أَحَدُكُمْ إِلَى طَعَامٍ ؛ فَلْيُجِبْ، فَإِنْ شَاءَ، طَعِمَ، وَإِنْ شَاءَ ؛ تَرَكَ۔ (صحیح المسلم، رقم : ١٤٣٠)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
12 صفر المظفر 1444
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں