سوال :
محترم مفتی صاحب! باپ کی زندگی میں اگر بیٹے کا انتقال ہوجائے تو دادا کی میراث میں یتیم پوتی پوتا کا حصہ کیوں نہیں ہوتا؟ براہ کرم ہر طرح کے دلائل سے اس مسئلہ کو واضح فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : محمد حذیفہ، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : آدمی کے انتقال کے بعد اس کے چھوڑے ہوئے مال کو ترکہ کہا جاتا ہے جس میں مرحوم کے ان مخصوص وارثین کا مخصوص حصہ ہوتا ہے جو مرحوم کے انتقال کے وقت حیات ہوتے ہیں۔ لہٰذا کسی شخص کے انتقال کے وقت اس کا کوئی وارث مثلاً اس کا کوئی بیٹا حیات نہ ہوتو اس بیٹے کا والد کے ترکہ میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ یہ شریعت مطہرہ کا واضح اور مسلّم اصول ہے، اس میں چوں چرا کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ البتہ اس سلسلے میں چند حکمتوں اور مصلحتوں کو جان لیا جائے تو مسئلہ ھذا میں مزید تشفی ہوجائے گی۔
معلوم ہونا چاہیے کہ شریعتِ مطہرہ میں حقِ وراثت کا مدار غربت اور تنگ دستی پر نہیں رکھا گیا ہے اور نہ ہی مالی ضرورت اور احتیاج پر رکھا گیا ہے، بلکہ اس کا مدار قوتِ قرابت داری پر ہے، اور اس میں حکمت یہ ہے کہ انسانی ضروریات و احتیاج مختلف ہوتی ہیں، اور کون زیادہ محتاج ہے؟ اس کے بارے میں تقسیمِ میراث کے وقت فیصلہ کرنا انتہائی دشوار ہے اور یہ انصاف کے پیمانے پر رکھتے ہوئے کسی کی احتیاج کے بارے میں فیصلہ صادر کرنا انسان کے لیے ممکن نہیں، اور باہمی اختلاف کا باعث بھی ہے۔ پس قرابت داری پر مدار ہونے کی بنا پر میت کے ساتھ رشتہ میں جو زیادہ قریب ہوگا وہی وراثت پانے میں بھی مقدم ہوگا، اور اس کی موجودگی میں دیگر وہ رشتہ دار جو قرابت داری میں دور ہوں گے وہ محروم قرار پائیں گے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے وارثین کے احوال اور ان کے حصوں کی تفصیل بیان کرنے کے بعد واضح انداز میں فرما دیا ہے : آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا۔ (سورہ نساء، آیت : ١١)
ترجمہ : تمہارے باپ دادا اور بیٹے تم نہیں جانتے کہ نفع رسانی کے لحاظ سے کون سا رشتہ تم سے زیادہ قریب ہے (اللہ تعالی کی حکمتِ بالغہ ہی اس کا فیصلہ کرسکتی ہے)اللہ تعالی نے یہ حصے ٹھہرادیے ہیں اور وہ (اپنے بندوں کی مصلحت کا) جاننے والا ہے(اپنے تمام احکام میں) حکمت والا ہے۔
خلاصہ یہ کہ قریب کا تعلق بعید کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے، شاخ کا حق پہلے ہے، شاخ در شاخ کا بعد میں، بیٹا چونکہ پوتے کے مقابلہ میں اقرب ہے، اس لیے اصولاً وہی مستحق وراثت ہے، لیکن یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ پوتا مطلقاً محروم نہیں ہوتا، بلکہ اس وقت محروم ہوتا ہے جب کہ دادا کی مذکر اولاد موجود ہو۔ یعنی اگر میت کی وفات کے وقت اس کا کوئی بیٹا حیات نہ ہو اور پوتے پوتیاں حیات ہوں تو پوتے پوتیاں اس کے وارث بنتے ہیں، کیونکہ اب ان سے اقرب کوئی موجود نہیں۔
یہ تو قانونی اور اصولی تقسیم ہے جس پر بلاشبہ عمل ہوگا۔ البتہ دادا کو اپنی زندگی میں اس بات کا پورا اختیار ہے کہ وہ اپنے یتیم پوتے پوتیوں کو اتنا ہی مال دے دے جتنا ان کے والد زندہ ہوتے تو ان کو حصہ ملتا۔ یا پھر اتنے ہی مال کی ان یتیم پوتی پوتا کے حق میں وصیت کردے جو ان کے تہائی مال سے پوری کی جائے گی۔ اسی طرح چچا یا تایا کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے یتیم بھتیجی بھتیجہ کے ساتھ شفقت وہمدردی اور ایثار کا معاملہ کریں، اور یتیموں کی کفالت کے متعلق جو بشارتیں آئیں ہیں ان کے مستحق بنیں۔
اخیر میں یہی کہا جائے گا کہ اگر کوئی مسئلہ ھذا کی ان ساری نزاکتوں کو اچھی طرح سمجھ لے اور بوقتِ ضرورت اپنی ذمہ داری کو اجر وثواب کی امید رکھتے ہوئے بحسن وخوبی ادا کردے تو کسی کو کوئی تکلیف بھی نہیں ہوگی اور نہ ہی کسی کو اعتراض کا موقع رہے گا۔
أخرج البیہقی فی سننہ عن زید بن ثابت وعلي و بن مسعود حدیثا طویلاً وطرفہ: إذا ترک أبناء و ابن ابن فلیس لابن الابن شیئ۔ (سنن کبریٰ للبیہقی، رقم : ۱۲۶۲۹)
فالأقرب یحجب الأبعد کالابن یحجب أولاد الابن۔ (الفتاویٰ الہندیہ، کتاب الفرائض، الباب الرابع فی الحجب، ۶/۴۴۴)
ویحجب بالابن أی ولد الابن یحجب بالابن ذکورہم و إناثہم فیہ سواء۔ (البحر الرائق : ۹/۳۷۵)
الأقرب فالأقرب یرجحون بقرب الدرجۃ أعنی اولٰہم بالمیراث جزء المیت أی البنون ثم بنوہم وإن سفلوا۔ (سراجی :۲۲)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
03 صفر المظفر 1444
ڈاکٹر مختار احمد انصاری.
جواب دیںحذف کریںواقعی بجا فرمایا آپ نے، شہر میں اس طرح کے درجنوں واقعات ہیں جو کہ مسئلہ ھذا کی مناسبت سے جونجھ رہے ہیں.
اللہ پاک سب کو شریعت کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اور آپ کو بہترین جزاے خیر عطا فرمائے آمین.
جزاک اللہ خیرا
جواب دیںحذف کریںجزاکم اللہ خیراً کثیرا
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ خیرا کثیرا مفتی صاحب
جواب دیںحذف کریں