سوال :
مفتی صاحب میری سیلون ہے اور اگر کوئی اپنی مرضی سے ذی الحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد بال کٹوانا چاہتا ہے تو میرے لیے کیا حکم ہے؟ کیا مجھ پر کوئی وبال آئے گا؟ کیا میرے لیے آنے والا پورا سال اس کی نحوست ہوگی؟ ازراہِ کرم رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : شفیق احمد، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : قربانی کرنے والوں کے لیے ذو الحجہ کا چاند دکھنے کے بعد سے لے کر قربانی کرلینے تک بال اور ناخن نہ کاٹنے کا حکم استحبابی حدیث شریف میں وارد ہوا ہے۔ یعنی بال ناخن کا نہ کٹوانا مستحب ہے، فرض یا واجب نہیں۔ اور اس کے خلاف عمل کرنا یعنی بال و ناخن کا کاٹ لینا خلافِ اولیٰ یعنی بہتر نہیں ہے، کوئی گناہ کی بات نہیں ہے۔ اور جن لوگوں پر قربانی واجب نہیں ہے ان کے لیے اس طرح کا کوئی حکم نہیں ہے۔ لہٰذا اس عشرہ میں آپ کے پاس اگر کوئی بال بنانے آتا ہے تو آپ کا ان لوگوں کے بال بنانا شرعاً جائز ہے۔ آپ پر اس کا کوئی وبال نہیں ہوگا اور نہ ہی سال بھر نحوست والی کوئی بات ہے۔ البتہ اگر نائی دوسروں کے غیرشرعی بال بناتا ہے یا ان کی داڑھی مونڈتا ہے تو بلاشبہ یہ عمل گناہ پر تعاون کرنا ہے جو ناجائز اور گناہ کی بات ہے جس سے ہر وقت بچنا ضروری ہے۔
عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ : مَنْ رَأَى هِلَالَ ذِي الْحِجَّةِ، وَأَرَادَ أَنْ يُضَحِّيَ فَلَا يَأْخُذَنَّ مِنْ شَعْرِهِ وَلَا مِنْ أَظْفَارِهِ۔ (ترمذی، رقم : 1523)
أَوْ خَيَّاطًا أَمَرَهُ أَنْ يَتَّخِذَ لَهُ ثَوْبًا عَلَى زِيِّ الْفُسَّاقِ يُكْرَهُ لَهُ أَنْ يَفْعَلَ لِأَنَّهُ سَبَبُ التَّشَبُّهِ بِالْمَجُوسِ وَالْفَسَقَةِ۔ (شامی : ٦/٣٩٢)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
06 ذی الحجہ 1443
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں