سوال :
مفتی صاحب! تشریق کے معنی کیا ہیں؟ اور قربانی کے گوشت کا ذخیرہ کب تک کیا جا سکتا ہے؟
(المستفتی : ڈاکٹر زبیر، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ایامِ تشریق کو تشریق کہنے کی مختلف وجوہات فقہاء نے لکھی ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ یہ "تشریق اللحم" یعنی گوشت خشک کرنے سے ماخوذ ہے، ان دنوں میں جانور ذبح کرکے اس کا گوشت خشک کیا جاتا تھا، دوسرے یہ کہ یہ "شروق الشمس" سے ہے، یعنی نمازِ عید کے لیے سورج چڑھنے کا انتظار کرنا وغیرہ۔
قربانی کا حکم آنے کے بعد ابتداء میں تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت کھانے کی ممانعت تھی، لیکن بعد میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی اجازت مرحمت فرمائی کہ تین دن کے بعد بھی قربانی کا گوشت استعمال کرسکتے ہیں، جیسا کہ درج ذیل متعدد احادیث سے ثابت ہوتا ہے۔
بخاری شریف میں ہے :
حضرت سلمہ ابن الاکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے تم میں سے قربانی کی، تو تیسرے دن وہ اس حالت میں صبح کرے کہ اس کے گھر میں قربانی کے گوشت میں سے کچھ بھی باقی نہ ہو۔ دوسرے سال صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ! کیا ہم اس سال بھی وہی کریں، جو پچھلے سال کیا تھا۔ (کہ تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت بھی نہ رکھیں)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب کھاؤ، کھلاؤ اور جمع کرو، پچھلے سال تو چونکہ لوگ تنگی میں مبتلا تھے، اس لیے میں نے چاہا کہ تم لوگوں کی مشکلات میں ان کی مدد کرو۔ (١)
مسلم شریف میں ہے :
حضرت عبداللہ بن واقد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کا گوشت تین دن کے بعد کھانے سے منع کیا۔ سیدنا عبداللہ بن ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا : میں نے یہ عمرہ سے بیان کیا، انہوں نے کہا : سچ کہا عبداللہ نے، میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا، وہ کہتی تھیں کہ دیہات کے چند لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عیدالاضحیٰ میں شریک ہونے کے لیے آئے۔ (اور وہ لوگ محتاج تھے) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : قربانی کا گوشت تین دن کے موافق رکھ لو، باقی خیرات کر دو۔ (تاکہ یہ محتاج بھوکے نہ رہیں اور ان کو بھی کھانے کو گوشت ملے) اس کے بعد لوگوں نے عرض کیا، یا رسول اللہ ! لوگ اپنی قربانی سے مشکیں بناتے تھے (ان کی کھالوں کی) اور ان میں چربی پگھلاتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اب کیا ہوا؟ لوگوں نے عرض کیا کہ آپ نے قربانی کا گوشت تین دن کے بعد کھانے سےمنع فرمایا ہے (اور اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ قربانی کا کوئی جز تین دن سے زیادہ رکھنا نہ چاہیے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں نے تم کو ان محتاجوں کی وجہ سے منع کیا تھا، جو اس وقت آگئے تھے، اب کھاؤ اور رکھ چھوڑو اور صدقہ دو۔ (٢)
مسلم شریف میں ہے :
حضرت جابر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تین دنوں کے بعد قربانیوں کا گوشت کھانے سے منع فرمایا۔ پھر اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم کھاؤ اور زاد راہ بناؤ اور جمع کرو۔ (٣)
دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ ہے :
قربانی کا گوشت جتنے دن بھی رکھ کر کھانا ممکن ہو کھاسکتے ہیں، حدیث شریف میں اس کی مطلقاً اجازت ہے، قربانی کا گوشت محرم کی پہلی تاریخ سے پہلے پہلے ہی کھانا لازم وضروری نہیں ہے بلکہ محرم کا مہینہ داخل ہوجانے کے بھی کھاسکتے ہیں،محرم کا مہینہ شروع ہوجانے سے گوشت حرام نہیں ہوجاتا، آپ نے جو سنا وہ درست نہیں۔ (رقم الفتوی : 37160)
درج بالا تفصیلات سے یہ واضح ہوگیا کہ قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ جتنے دن بھی چاہیں رکھ سکتے ہیں، شرعاً اس میں کوئی پابندی نہیں ہے۔ جس حدیث میں اس کی ممانعت وارد ہوئی ہے وہ وقتی طور پر تھی جو بعد میں منسوخ ہوگئی۔
١) عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَنْ ضَحَّى مِنْكُمْ، فَلَا يُصْبِحَنَّ بَعْدَ ثَالِثَةٍ وَفِي بَيْتِهِ مِنْهُ شَيْءٌ. فَلَمَّا كَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ قَالُوا : يَا رَسُولَ اللَّهِ، نَفْعَلُ كَمَا فَعَلْنَا عَامَ الْمَاضِي ؟ قَالَ : كُلُوا وَأَطْعِمُوا وَادَّخِرُوا ؛ فَإِنَّ ذَلِكَ الْعَامَ كَانَ بِالنَّاسِ جَهْدٌ، فَأَرَدْتُ أَنْ تُعِينُوا فِيهَا۔ (صحیح البخاری، رقم : ٥٥٦٩)
٢) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ وَاقِدٍ قَالَ : نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَكْلِ لُحُومِ الضَّحَايَا بَعْدَ ثَلَاثٍ. قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ : فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِعَمْرَةَ ، فَقَالَتْ : صَدَقَ ؛ سَمِعْتُ عَائِشَةَ ، تَقُولُ : دَفَّ أَهْلُ أَبْيَاتٍ مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ حَضْرَةَ الْأَضْحَى زَمَنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " ادَّخِرُوا ثَلَاثًا، ثُمَّ تَصَدَّقُوا بِمَا بَقِيَ ". فَلَمَّا كَانَ بَعْدَ ذَلِكَ، قَالُوا : يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ النَّاسَ يَتَّخِذُونَ الْأَسْقِيَةَ مِنْ ضَحَايَاهُمْ، وَيَجْمُلُونَ مِنْهَا الْوَدَكَ . فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " وَمَا ذَاكَ ؟ " قَالُوا : نَهَيْتَ أَنْ تُؤْكَلَ لُحُومُ الضَّحَايَا بَعْدَ ثَلَاثٍ. فَقَالَ : إِنَّمَا نَهَيْتُكُمْ مِنْ أَجْلِ الدَّافَّةِ الَّتِي دَفَّتْ فَكُلُوا، وَادَّخِرُوا، وَتَصَدَّقُوا۔ (صحیح المسلم، رقم : ١٩٧١)
٣) عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ نَهَى عَنْ أَكْلِ لُحُومِ الضَّحَايَا بَعْدَ ثَلَاثٍ، ثُمَّ قَالَ بَعْدُ : كُلُوا، وَتَزَوَّدُوا، وَادَّخِرُوا۔ (صحیح المسلم، رقم : ١٩٧٢)
قال النبي صلی علیہ السلام : ونَهَيْتُكُمْ عَنْ لُحُومِ الأضاحِي فَوْقَ ثَلاثٍ فَأمْسِكُوا ما بَدا لَكُمْ، وفي المرقاة : قالَ الطِّيبِيُّ : نَهاهُمْ أنْ يَأْكُلُوا ما بَقِيَ مِن لُحُومِ أضاحِيِّهِمْ فَوْقَ ثَلاثِ لَيالٍ، وأوْجَبَ عَلَيْهِمُ التَّصَدُّقَ بِهِ، فَرَخَّصَ لَهُمُ الإمْساكَ ما شاءُوا۔ (مرقاۃ المفاتیح : ٤/١٢٥٥)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
23 ذی الحجہ 1443
جزاک اللہ خیرا احسن الجزاء فی الدارین عبدالشکور پربھنی مہاراشٹر
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ خیرا کثیرا مفتی صاحب
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ خیرا فی الدارین محمد اسلم کاساپوری
جواب دیںحذف کریں