سوال :
زید کی دوبیٹیاں معاشی اعتبار سے کافی کمزور ہیں۔ لہٰذا زید اپنی زندگی میں ہی اپنی ذاتی زمین پر ان دونوں کو الگ الگ مکان بنا کر دینا چاہتا ہے۔ اور زید کے دیگر بیٹے بیٹیوں کو اس پر کوئی اعتراض بھی نہیں ہے۔ تو کیا ایسا کرنا درست ہے؟ اگر ہاں تو زید ان دونوں کو مکان کس عنوان سے دے؟ ہبہ کہہ کر مالک بنادے یا قرض کہہ کر دے کہ جس وقت ترکہ میں سے حصہ ملے گا مکان کی قیمت کاٹ لی جائے گی؟ مکان کی کون سی قیمت کاٹی جائے گی جس قیمت پر مکان بنا وہ؟ یا ترکہ کی تقسیم کے وقت جو قیمت رہے گی وہ؟ رہنمائی فرماکر عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : حافظ مجتبی، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : آدمی کو اپنی زندگی میں اس بات کا اختیار ہوتا ہے کہ وہ اپنی اولاد میں سے کسی کو اپنے مال میں سے جو چاہے دے۔ اس میں دیگر اولاد سے اجازت لینے یا انہیں اعتراض کرنے کا حق نہیں ہے۔ البتہ اس میں شرط یہی ہے کہ والد کسی اولاد کو نقصان پہنچانے کے ارادہ سے کسی کو کم مال نہ دے یا مال سے محروم نہ رکھے۔ تاہم بہتر یہی ہے کہ والد اولاد کے درمیان ہبہ اور گفٹ کرنے میں برابری کرے۔ لہٰذا صورت مسئولہ میں زید مالی اعتبار سے کمزور اپنی دو بیٹیوں کو گھر بناکر دے سکتا ہے۔ شرعاً اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے۔ البتہ بہتر یہ ہے کہ اتنا ہی مال دیگر اولاد کو بھی دے دے۔
جیسا کہ اوپر بتایا گیا کہ وہ انہیں بطور ہبہ بھی دے سکتا ہے اور بطور قرض بھی دے سکتا ہے۔ جس کی مختلف صورتیں بن سکتی ہیں۔
اگر بطور ہبہ دینا ہے تو نقد رقم کی شکل میں دے سکتا ہے۔ اور اگر مکان بناکر دیا جائے تو اس پر بیٹی کا مکمل اختیار دے دیا جائے تب ہبہ مکمل ہوگا۔ اور بعد میں پھر اس مکان پر کسی اور کا اختیار نہیں ہوگا اور نہ ہی یہ مکان والد (زید) کے ترکہ میں شامل ہوگا۔
اگر بطور قرض دینا ہے تو نقد رقم کی شکل میں اگر دیا گیا ہے تو جب بھی واپس لیا جائے گا تو اتنی ہی رقم واپس لی جائے گی، خواہ کتنے ہی سالوں کے بعد اس کی ادائیگی ہو۔ اور اگر مکان بناکر دیا گیا ہے تو اس بات کی وضاحت کرکے دیا جائے کہ یہ مکان تیری رہائش کے لیے ہے۔ لہٰذا میرے انتقال کے بعد جب بھی میرا ترکہ تقسیم ہوگا تو یہ مکان اس میں شمار ہوگا۔
المالک ہو المتصرف في الأعیان المملوکۃ کیف شاء۔ (التفسیر البیضاوي/الفاتحۃ : ۷)
عن أبي صفرۃ قال: سمعت النعمان بن بشیر رضي اللّٰہ عنہ یخطب قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: اعدلوا بین أولادکم، اعدلوا بین أولادکم۔ (شعب الإیمان للبیہقي، رقم : ۸۶۹۱)
قال النووي : فیہ استحباب التسویۃ بین الأولاد في الہبۃ۔ (بذل المجہود / کتاب الإجارۃ ۱۱؍۲۷۳ تحت رقم الحدیث: ۳۵۴۴ مرکز الشیخ أبي الحسن الندوي أعظم جراہ)
وذہب الجمہور إلی أن التسویۃ مستحبۃ، فإن فضل بعضًا صح وکرہ، وحملوا الأمر في حدیث النعمان علی الندب، والنہي علی التنزیہ۔ (إعلاء السنن، کتاب الہبۃ / باب استحباب التسویۃ بین الأولاد ۱۶؍۹۶-۹۷ إدارۃ القرآن کراچی)
وروی المعلی عن أبي یوسف أنہ لا بأس بہ إذا لم یقصد بہ الإضرار، وإن قصد بہ الإضرار سوی بینہم یعطي الإبنۃ مثل ما یعطي للإبن وعلیہ الفتویٰ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الہبۃ / الباب السادس في الہبۃ للصغیر ۴؍۳۹۱ زکریا)
استقرض من الفلوس الرائجۃ فعلیہ مثلہا کاسدۃ ولا یغرم قیمتہا۔ قال الشامي : أي إذا ہلک وإلا فیرد عینہا اتفاقاً۔ (درمختار مع الشامي، کتاب البیوع، باب المرابحۃ والتولیۃ، فصل في القرض، ۷/۳۹۰)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
09 ذی القعدہ 1443
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں