سوال :
محترم مفتی صاحب! کیا دوسروں کی طرف سے عمرہ کرسکتے ہیں؟ اور اس کا طریقہ کیا ہے؟ آسان انداز میں رہنمائی فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : محمد حامد، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : عمرہ دوسروں کی طرف سے کرنا درست ہے خواہ وہ زندہ ہوں یا مردہ۔ اور اس کے دو طریقے بیان کیے گئے ہیں۔
پہلا طریقہ یہ ہے کہ جس کی طرف سے عمرہ کرنا ہو احرام باندھتے وقت اس کی طرف سے احرام باندھنے کی نیت کرے، اور تلبیہ بھی اس کی طرف سے پڑھے۔ اس کے بعد بقیہ اعمال معمول کے مطابق انجام دے۔
دوسرے یہ کہ عمرہ اپنی طرف سے ادا کرے اور اس کا ثواب دوسرے کو ہدیہ کردے، یعنی اس طرح نیت کرلے کہ اے اللہ میں نے یہ جو عمرہ کیا ہے یا کروں گا اس کا ثواب فلاں فلاں کو عطا فرما۔ اس صورت میں احرام وتلبیہ میں نیت اپنی ہی کرے گا۔
الْأَصْلُ أَنَّ كُلَّ مَنْ أَتَى بِعِبَادَةٍ مَا،لَهُ جَعْلُ ثَوَابِهَا لِغَيْرِهِ وَإِنْ نَوَاهَا عِنْد الْفِعْلِ لِنَفْسِهِ لِظَاهِرِ الْأَدِلَّةِ.... (قَوْلُهُ بِعِبَادَةٍ مَا) أَيْ سَوَاءٌ كَانَتْ صَلَاةً أَوْ صَوْمًا أَوْ صَدَقَةً أَوْ قِرَاءَةً أَوْ ذِكْرًا أَوْ طَوَافًا أَوْ حَجًّا أَوْ عُمْرَةً، أَوْ غَيْرَ ذَلِكَ مِنْ زِيَارَةِ قُبُورِ الْأَنْبِيَاءِ عَلَيْهِمْ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ وَالشُّهَدَاءِ وَالْأَوْلِيَاءِ وَالصَّالِحِينَ، وَتَكْفِينِ الْمَوْتَى، وَجَمِيعِ أَنْوَاعِ الْبِرِّ كَمَا فِي الْهِنْدِيَّةِ ط وَقَدَّمْنَا فِي الزَّكَاةِ عَنْ التَّتَارْخَانِيَّة عَنْ الْمُحِيطِ الْأَفْضَلُ لِمَنْ يَتَصَدَّقُ نَفْلًا أَنْ يَنْوِيَ لِجَمِيعِ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ لِأَنَّهَا تَصِلُ إلَيْهِمْ وَلَا يَنْقُصُ مِنْ أَجْرِهِ شَيْءٌ..... (قَوْلُهُ لِغَيْرِهِ) أَيْ مِنْ الْأَحْيَاءِ وَالْأَمْوَاتِ بَحْرٌ عَنْ الْبَدَائِعِ. قُلْت: وَشَمَلَ إطْلَاقُ الْغَيْرِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ أَرَ مَنْ صَرَّحَ بِذَلِكَ مِنْ أَئِمَّتِنَا، وَفِيهِ نِزَاعٌ طَوِيلٌ لِغَيْرِهِمْ۔ (شامی : ٢/٥٩٥)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
21 ذی القعدہ 1443
جزاک اللہ خیرا کثیرا...
جواب دیںحذف کریں