سوال :
محترم مفتی صاحب! جھینگا جسے انگریزی میں پراؤنس کہتے ہیں اس کا کھانا احناف کے یہاں کیا حکم رکھتا ہے؟ کچھ لوگ جائز کہتے ہیں اور کچھ ناجائز ۔ اور اگر یہ ناجائز ہے تو اس کی تجارت کا کیا حکم ہوگا؟ براہ کرم آپ مدلل جواب عنایت فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : خلیل احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : جھینگا (Prawn) مچھلی کی جنس سے ہے یا نہیں اس میں علماء کا اختلاف ہے، بعض حضرات اس کو مچھلی کی جنس سے مانتے ہیں اور بعض نہیں مانتے، اسی اختلاف کی بنا پر اس کے حکم میں بھی اختلاف ہے، جھینگے کو مچھلی ماننے والے اس کو حلال کہتے ہیں اور مچھلی نہ ماننے والے اس کو ناجائز کہتے ہیں۔ یہاں ہم دارالافتاء مدرسہ شاہی مرادآباد کے جید مفتی مفتی شبیر احمد صاحب قاسمی دامت کا ایک مفصل اور تحقیقی جواب نقل کررہے ہیں جس سے آپ کو ان شاءاللہ اس مسئلہ پر تشفی ہوجائے گی۔
جھینگا دریائی جانور ہے، اور دریائی جانوروں میں سے مچھلی بجمیع انواعہ حنفیہ کے نزدیک بالاتفاق حلال ہے۔ اب غور طلب مسئلہ صرف اتنا ہے کہ جھینگا مچھلی کی قسم میں داخل ہے یانہیں اور کسی مچھلی کے مچھلی ہونے کے لئے اس کے خواص اور صفات لازمہ کے تعین کے بارے میں شریعت اسلامی میں کوئی منصوص دلیل نہیں ہے، اس لئے اس کی معرفت کا مدار مبصرین و ماہر حیوانات اور اہل لغت کی تحقیق پر ہوگا اور اگر ان میں اختلاف ہے، تو اس کے حکم میں بھی اختلاف ہوگا اور اگر ان میں کوئی اختلاف نہیں ہے، تو حکم میں بھی اختلاف نہ ہوگا اور تحقیق و تفتیش کے باوجود کسی مبصر اور ماہر اور اہل لغات کا اختلاف اس ناکارہ کی نظر سے نہیں گذرا اور نہ ہی اہل لغات نے جھینگا کو اقسام سمک سے خارج کیا ہے اور تذکرۃ الخلیل کی اصل عبارت دیکھ لی گئی ہے کہ حضرت قدس سرہ کو عام سمک کی طرح اس میں گلپھڑے نہ ہونے کی وجہ سے جھینگا کے اقسام سمک میں شامل ہو نے میں تردد ہوگیا تھا اور تردد کی بناء پر حلت کا فتوی نہ دینا حضرت قدس سرہ کا تقویٰ تھا اور اس سے عدم جواز پر فتوی دینا لازم نہیں آتا اور اقسام سمک میں داخل ہونے کے لئے تین صفتوں میں سے صرف ایک کا پایا جانا کافی ہے۔
(۱) خشکی میں آکر تڑپنا اور پھدکنا۔
(۲) گلپھڑے کا ہونا اور اسی سے سانس لینا۔
(۳) کانٹے دار اور لائن دار پر یا دم کا ہونا اور بعض سمک میں تینوں صفتیں جمع ہوجاتی ہیں، جیساکہ بام مچھلی میں ہے اور بعض میں صرف ایک یادوصفتیں ہوتی ہیں، جیسے کہ مار ماہی کہ اس میں کانٹے دار پر نہیں ہوتے۔ نیز خشکی میں آکر کودتی بھی نہیں، بلکہ سانپ کی طرح رینگتی ہے۔ البتہ اس کے صرف گلپھڑے ہوتے ہیں اور جھینگے میں کانٹے دار دم ہوتی ہے اورخشکی میں آکر پھدکتا اور کودتا ہے، البتہ اس کے گلپھڑے نہیں ہوتے اور گلپھڑے ہر ایک سمک کے لئے جزء لا ینفک بھی نہیں ہے۔ نیز خشکی میں آکر زیادہ دیر زندہ بھی نہیں رہتا ہے اورسوال نامہ میں اس کی زندگی کے بارے میں جو کہا گیا ہے، وہ مسلّم نہیں، اس لئے کہ تجربہ کرکے دیکھا گیا ہے کہ بعض سمک جھینگے سے زیادہ دیر تک زندہ رہتی ہے اور سمک کی صفات کے بارے میں فتاوی عبدالحئ میں منقول ہے۔
اب یہ ناکارہ اپنی طرف سے کچھ لکھے بغیر مبصرین حیوانات اور اہل لغات اور اہل فتاوی کی سولہ کتابوں کے حوالے حلت جھینگا مچھلی کے متعلق آنجناب کی خدمت میں پیش کرنا مناسب سمجھتا ہے تاکہ ان پر غور کرکے شبہات کا ازالہ کیا جائے۔
(۱) القاموس المحیط جو لغت کی مشہور اورمستند کتاب ہے، اس میں لکھتے ہیں ۔ الاربیان بالکسر سمک کالدود ۴؍۳۳۲ کہ جھینگا کیڑے کی شکل میں ایک مچھلی ہے۔
(۲) منتہی الارب فی لغت العرب فارسی کی مشہور لغت ہے، اس میں لکھتے ہیں ’’اربیان نوعی از ماہی است کہ آں را بہندی جھینگہ گویند۲؍۱۲۰‘‘ کہ جھینگہ اقسام سمک میں سے ایک ہے، جس کو ہندوستان میں جھینگہ کہا جاتاہے۔
(۳) شمس اللغات ایک مستند کتاب ہے، اس میں لکھتے ہیں ’’اربیان بفتح الف و باء تازی ملخ آب و آں نوعی از ماہی خود است بہندی جھینگہ گویند۴۰‘‘ کہ اربیان ایک مچھلی ہے، جس کو ہندوستان میں جھینگا کہتے ہیں۔
(۴) صراح لغت کی ایک مشہور کتا ب ہے، اس میں ہے کہ اربیان نوعے از ماہی ۵۶۰؍ کہ جھینگا از قسم مچھلی ہے۔
(۵) عرب و عجم کی مشہور کتاب تاج العروس میں ہے، والاربیان بالکسر سمک کالدود ۱۰؍۱۴٣ جھینگا کیڑے کی طرح ایک مچھلی ہے۔
(۶) المنجد اردو میں ہے کہ الاربیان جھینگا مچھلی ہے۔ (ص : ۵۲)
(۷) المنجد عربی میں ہے بر غوث البحر نوع من صغر السمک تشبہ ہیئتہ البر غوث ص :۳۲ کہ جھینگا پسو کے مشابہ ایک چھوٹی مچھلی کی قسم ہے اور ا س کی دم میں مچھلی کی طرح کانٹے دار لائن دار پر ہے۔
(۸) فیروز اللغات میں ہے کہ جھینگا ایک قسم کی چھوٹی مچھلی ہے۔ (ص : ۳۹۷)
(۹) علامہ دمیریؒ منجملہ ماہرین حیوانات میں سے ہیں وہ اپنی کتاب حیاۃ الحیوان میں نقل فرماتے ہیں کہ الروبیان ہو السمک ۱؍۴۶۰؍ کہ جھینگا مچھلی ہی ہے۔
(۱۰) مخزن المفردات طب کی مشہور کتا ب ہے، اس میں یہ عبارت ہے کہ مچھلی جھینگہ ماہی روبیان حلال مچھلی ہے، اس کی مونچھیں لمبی ہوتی ہیں، رنگ سفید ذائقہ شیریں بساندہ۔ (مخزن المفردات)
(۱۱) تذکرہ داؤد الطائی میں ہے، روبیان اسم مضرب من السمک کہ جھینگا مچھلی کی ایک قسم کا نام ہے۔
(۱۲) مشہور محقق علامہ امیر علیؒ نے عین الہدایہ۴؍۱۷۳؍ میں جھینگے کو اقسام سمک میں شمار فرماکر مباح قرار دیا ہے۔
(۱۳) حضرت مولانا مفتی عبدالسلام صاحب جواہر الفتاوی میں لکھتے ہیں کہ علماء مصر و علماء عرب نے جھینگے کے بارے میں لکھا ہے کہ دنیا میں اقسام سمک میں سب سے زیادہ ذائقہ دارجھینگا مچھلی ہے۔
ألذالأ سماک في الدنیا و أغلاہا فیہا الخ۔ (جواہر الفتاوی۲؍۵۹۷)
(۱۴) حضرت مفتی عبد الرحیم صاحب لاجپوری دامت برکاتہم نے فتاوی رحیمیہ قدیم ۶؍۲۹۷، جدید زکریا۱۰؍۷۷؍ میں بہت مفصل اور مدلل فتاوی جھینگا کے اقسام سمک میں سے ہونے اور حلال ہونے پر تحریر فرمایا ہے۔
(۱۵) حضرت حکیم الامت تھانوی قدس سرہ نے امداد الفتاوی ۴؍۱۰۴؍ میں علامہ دمیریؒ کا حوالہ دے کر بہت انشراح کے ساتھ جھینگا کے دریائی مچھلی اور حلال ہونے پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے تفصیلی فتوی صادر فرمایا ہے، جس کا ندائے شاہی میں شائع شدہ فتویٰ میں حوالہ دیا گیا ہے۔
(۱۶) حضرت علامہ ابو الحسنات، مولانا عبد الحئ لکھنؤی نے اپنے فتوی میں جھینگے کو مچھلی ثابت فرماکر حلال لکھا ہے، اور ساتھ میں ان لوگوں کی تردید فرمائی ہے، جو ایسے صفات کی بناء پر جھینگے کو دائرہ حلت سے خارج کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جو صفات آنجناب نے سوال نامہ میں پیش فرمائی ہیں، جو کہ مچھلی کے صفات لازمہ میں سے نہ ہونا مبصرین کی کتابوں سے ثابت ہوچکا ہے اور اس ناکارہ کی معلومات کے مطابق اپنے اکابر میں سے کسی نے بھی جھینگے کے بالانشراح بالکل کھول کر ناجائز یا حرام ہونے پر فتوی نہیں دیا ہے اور جن اکابر نے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے وضاحت کے ساتھ لکھا ہے، انہوں نے صاف حلال ہونے کا فتوی دیا ہے، جیسا کہ حضرت حکیم الامت تھانویؒ قدس سرہ، حضرت مولانا عبد الحئ لکھنؤی، حضرت مولانا مفتی عبد الرحیم صاحب لاجپوری مدظلہم اور صاحب عین الہدایۃ وغیرہم ہیں۔
اخیر میں ایک اشکال اور اندیشہ کا کہ " جھینگا اگر حلال ہوا اور نہ کھایا تو خدا تعالیٰ گرفت نہیں کریں گے کہ جھینگا کو میں نے حلال کیا، تو کیوں نہ کھایا، لیکن اگر جھینگا حرام ہوا اور کھالیا، جیسا کہ فتوی دیا جارہا ہے، پھر تو خیر نہیں۔" کا اصولی اور مسکت جواب لکھتے ہیں کہ مذکورہ تمام دلائل و شواہد کی بناء پر اس ناکارہ کو بھی حلت پر فتوی لکھنے میں بالکل اطمینان ہے۔ اور الحمدللہ ہم مذکورہ اکابر کے فتاوی کو شرعی دلیل اورحجت سمجھتے ہیں اور ہم شرعی دلیل و حجت کے مطابق فتوی لکھنے میں کار ثواب اورحق تعالیٰ شانہ سے خیر ہی کی امید رکھتے ہیں اور ایسے اکابر کے فتاوی کو نقل کر کے مسئلہ بتلانے میں خدائے پاک سے یہ امید ہے کہ آخرت میں ان حاملین شریعت کے زمرہ میں شامل فرمائیں گے۔ (فتاوی قاسمیہ : ٢٤/١٢٩)
درج بالا دلائل سے یہ واضح ہوچکا ہے کہ جھینگا (Prawn) کھانا جائز ہے۔ اور جب اس کا کھانا جائز ہے تو اس کی تجارت اور اس کی آمدنی بھی حلال ہے۔
الروبیان : ہو سمک صغیرٌ جدًا أحمر۔ (حیاۃ الحیوان : ۱؍۴۷۳)
الدود الذي یقال لہ ’’جھینگا‘‘ حرام عند بعض العلماء؛ لأنہ لا یشبہ السمک، فإنما یباح عندنا من صید البحر أنواع السمک، وہٰذا لا یکون کذٰلک، وقال بعضہم : حلال ؛ لأنہ یسمی باسم السمک۔ (مجموعۃ الفتاویٰ/ کتاب الأکل والشرب، ۲؍۲۹۷ کراچی)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
07 شوال المکرم 1443
جزاک اللہ خیراً و احسن الجزاء
جواب دیںحذف کریںMaasha Allah Mudallal jawab
جواب دیںحذف کریںMashaallah bohot khoob Allah jaza e khair ata farmai
جواب دیںحذف کریںاشتہار بہت زیادہ آرہا ہے
جواب دیںحذف کریںماشاءاللہ،جزاک اللہ خیر مفتی صاحب،
جواب دیںحذف کریںاللہ تعالیٰ آپ کے علم و عمل میں خوب ترقی اور برکتیں عطا فرمائے آمین
گستاکہی معاف, لیکن فتاویٰ رشیدیہ میں حرام لکھا ہے.حضرت مولانا کا فتویٰ ہے, اور جہاں تک میرے علم میں ہے انکا فتویٰ کے بعد کسی اور فتویٰ کی ضرورت نہی رہتی. اور سائنس کی تحقیق ہے کی پراونس یعنی جھینگا نہ ہی مچھلی ہے نہ ہیمچھلی کی کوئی قسم.
جواب دیںحذف کریںیہ کون سا اصول ہے کہ حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے فتوی کے بعد کسی فتوی کی ضرورت نہیں ہوتی؟ اور سائنس کی تحقیق یہ بھی ہے کہ انسان پہلے بندر تھا، کیا آپ اسے بھی مانتے ہیں؟
حذف کریںEk toh gunam uppar se andh bhakt mosiq diwan
حذف کریںAamir usmani sahab gumnam तबसेरे शाए ही न करे j
حذف کریںاتنے استدلال کے بعد بھی نہ ماننا کم علمی اور جہالت ہے
حذف کریںTidi kis Bina par halal hai scence me o अर्थोपोडा में आता है लेकिन मुकमल आबी है
جواب دیںحذف کریںअल्लामा दमेरी से ज्यादा जानवरो आलम इस्लाम कोई नही जानता उनके हवाले से मौलाना अश्रफली साहब की राय सही
جواب دیںحذف کریںपर देख सकते झींगा सांस गिल से लेता wikkipidiya
حضرت مفتی محمد تقی صاحب دامت برکاتہم کا فتوی بھی شامل کرتے
جواب دیںحذف کریں