سوال :
محترم مفتی صاحب! سانپ پالنا کیسا ہے؟ اس کی خرید و فروخت اور اس کی آمدنی کا کیا حکم ہے؟ مدلل جواب عنایت فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : جاوید احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سانپ بلاشبہ موذی اور مہلک جانوروں میں سے ہے، یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے قتل کا حکم فرمایا ہے۔ لہٰذا شوقیہ طور پر یا ان سے کھیلنے کے لیے سانپوں کا پالنا شرعاً جائز نہیں ہے۔ البتہ اگر سائنسی یا طبی تجربہ کے لیے یا دوا وغیرہ بنانے کے لیے کسی محفوظ جگہ پر اس کو رکھا جائے کہ وہ دوسروں کو تکلیف نہ پہنچاسکے تو اس کی گنجائش ہوگی۔
خنزیر کے علاوہ کسی بھی حرام جانور کی خرید وفروخت کے جائز ہونے کا مدار اس بات پر ہے کہ وہ جانور قابل انتفاع ہو اور اس کا کوئی جائز اور حلال استعمال بھی موجود ہو۔ موجودہ دور میں چونکہ سانپ کا استعمال بہت سی دواؤں میں ہوتا ہے۔ لہٰذا سانپ کی خرید وفروخت شرعاً جائز ہے اور اس کی آمدنی بھی حلال ہے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : اقْتُلُوا الْأَسْوَدَيْنِ فِي الصَّلَاةِ : الْحَيَّةَ وَالْعَقْرَبَ۔ (سنن ابی داؤد، رقم : ٩٢١)
وَسَيَأْتِي أَنَّ جَوَازَ الْبَيْعِ يَدُورُ مَعَ حِلِّ الِانْتِفَاعِ، وَأَنَّهُ يَجُوزُ بَيْعُ الْعَلَقِ لِلْحَاجَةِ مَعَ أَنَّهُ مِنْ الْهَوَامِّ، وَبَيْعُهَا بَاطِلٌ. وَكَذَا بَيْعُ الْحَيَّاتِ لِلتَّدَاوِي ....... وَنَقَلَ السَّائِحَانِيُّ عَنْ الْهِنْدِيَّةِ : وَيَجُوزُ بَيْعُ سَائِرِ الْحَيَوَانَاتِ سِوَى الْخِنْزِيرِ وَهُوَ الْمُخْتَارُ۔ (شامی : ٣/٥١)
وَفِي النَّوَازِلِ وَيَجُوزُ بَيْعُ الْحَيَّاتِ إذَا كَانَ يُنْتَفَعُ بِهَا فِي الْأَوْدِيَةِ وَإِنْ كَانَ لَا يُنْتَفَعُ بِهَا لَا يَجُوزُ وَالصَّحِيحُ أَنَّهُ يَجُوزُ بَيْعُ كُلِّ شَيْءٍ يُنْتَفَعُ بِهِ كَذَا فِي التَّتَارْخَانِيَّة۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ٣/١١٤)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
05 شوال المکرم 1443
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں