سوال :
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ عیدی کا لینا دینا شرعاً کیا حکم رکھتا ہے؟ مدلل رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : محمد یسین، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : حدیث شریف کے بیان کے مطابق ہدیہ تحفہ کا لین دین دلوں کی کدورت کو دور کرنے اور محبت میں اضافہ کا سبب ہے۔ لہٰذا کسی بھی وقت اس کا لین دین فائدہ سے خالی نہیں ہے۔
عید کا دن بلاشبہ مسلمانوں کے لیے بہت بڑی خوشی کا دن ہے۔ لہٰذا اس دن بچوں، رشتہ داروں، ما تحتوں اور ملازموں وغیرہ کو اپنی استطاعت کے مطابق برضا ورغبت ہدیہ کے طور پر عیدی دینا شرعاً جائز بلکہ مستحسن عمل ہے۔
روایات میں ملتا ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے استاذ امام حماد رحمۃ اللہ علیہ پانچ سو افراد کو ایک ایک جوڑا اور ایک ایک سو درہم عید کے دن عنایت کیا کرتے تھے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : تَهَادَوْا ؛ فَإِنَّ الْهَدِيَّةَ تُذْهِبُ وَحَرَ الصَّدْرِ۔ (سنن الترمذی، رقم : ٢١٣٠)
عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي مُسْلِمٍ عَبْدِ اللَّهِ الْخُرَاسَانِيِّ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : تَصَافَحُوا يَذْهَبِ الْغِلُّ، وَتَهَادَوْا تَحَابُّوا، وَتَذْهَبِ الشَّحْنَاءُ۔ (مؤطا امام مالک، رقم : ٢٦٤١)
وقالَ أحْمَدُ بنُ عَبْدِ اللهِ العِجْلِيُّ : كانَ أفْقَهَ أصْحابِ إبْراهِيمَ، وكانَتْ رُبَّما تَعْتَرِيهِ مُوتَةٌ وهُوَ يُحَدِّثُ. وبَلَغَنا : أنَّ حَمّادًا كانَ ذا دُنْيا مُتَّسِعَةٍ، وأنَّهُ كانَ يُفَطِّرُ فِي شَهْرِ رَمَضانَ خَمْسَ مائَةِ إنْسانٍ، وأنَّهُ كانَ يُعْطِيهِم بَعْدَ العِيدِ لِكُلِّ واحِدٍ مائَةَ دِرْهَمٍ۔ (سير اعلام النبلاء : ٥/ ٢٣٤)
وعَنِ الصَّلْتِ بنِ بِسْطامَ، قالَ : وكانَ يُفَطِّرُ كُلَّ يَوْمٍ فِي رَمَضانَ خَمْسِينَ إنْسانًا، فَإذا كانَ لَيْلَةُ الفِطْرِ، كَساهُم ثَوْبًا ثَوْبًا۔ (سیر اعلام النبلاء : ٢/٢٣٨)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
03 شوال المکرم 1443
ماشاء اللہ
جواب دیںحذف کریںجزاکم اللہ خیرا کثیراً کثیرا
💐
جواب دیںحذف کریںماشاء اللہ
جواب دیںحذف کریںجزاکم اللہ خیرا و احسن الجزاء
جزاک اللہ خیرا کثیرا مفتی صاحب
جواب دیںحذف کریں