اتوار، 8 مئی، 2022

دورانِ تقریر قرآن مجید یا نماز پڑھنا

سوال :

محترم مفتی صاحب! اکثر جمعہ کی نماز سے قبل بیان کے دوران کچھ لوگ تلاوت قرآن پاک کرتے رہتے ہیں، کچھ  صلوٰۃ التسبیح کی ادائیگی کرتے رہتے ہیں۔ مقررین حضرات تلاوت کرنے والوں کو تلاوت کرنے سے منع کر دیتے ہیں۔ کچھ مانتے ہیں کچھ نہیں مانتے پڑھتے رھتے ہیں۔
1) دورانِ بیان تلاوت قرآن پاک، صلوٰۃ التسبیح پڑھنا، کیسا ہے؟
2) مقرر کا ان اعمال سے منع کرنا یہ عمل شرعاً کیسا ہے؟
(المستفتی : عمران الحسن، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : جمعہ کے دن جمعہ کی نماز سے پہلے وعظ وبیان کا سلسلہ ایک مفید اور مبارک سلسلہ ہے۔ اس وقت وعظ ونصیحت کا ثبوت خود آثارِ صحابہ سے ملتا ہے جیسا کہ مستدرک حاکم میں ہے کہ حضرت ابو ہریرہؓ جمعہ کے دن خطبہ سے پہلے تقریر میں آنحضرت ﷺ کی احادیث بیان کیا کرتے تھے جب امام خطبہ کیلئے آتے تو وہ اپنی تقریر موقوف کر دیا کرتے تھے۔ (مستدرک، ۱/۱۰۸، ۳/۵۱۲)

قال الحاکم و الذھبیؒ صحیح۔ (ازراہ سنت مولانا محمد سرفراز خان صاحب)

اسی طرح مستدرک میں حضرت عبداللہ بن بسرؓ کا جمعہ کے دن خطبہ سے قبل وعظ کہنا منقول ہے۔ اور اصابہ فی تذکرۃ الصحابہ(۱۸۴/۱) میں ہے کہ حضرت تمیم داریؓ کے اصرار پر حضرت عمرؓ نے ان کو اجازت دیدی تھی کہ جمعہ کے دن اس سے قبل کہ میں خطبہ کیلئے آؤں، تقریر کر سکتے ہو۔ (ماہنامہ البلاغ، شوال ۱۴۱۵)

لہٰذا اس وقت کوئی مستند عالم اہم موضوع پر خطاب کرے تو عوام الناس کے لیے بہتر یہی ہے کہ نفل نمازیں اور تلاوت نہ کرتے ہوئے تقریر کو سنیں تاکہ اس سے عقائد اور اعمال کی اصلاح ہو۔

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
امام صاحب کی اردو تقریر کے دوران تلاوت کرنے، تحیة الوضوء اور تحیة المسجد پڑھنے کی گنجائش ہے، یہ شریعت کے خلاف نہیں ہے۔ لیکن بہتر یہ ہے کہ آپ یہ چیزیں پہلے کرلیں، ایسی صورت میں آپ اطمینان کے ساتھ یہ امور انجام دے سکیں گے، تقریر کے دوران کرنے سے تلاوت ونماز میں خلل ہوسکتا ہے، نیز پہلے ادا کرلینے کی صورت میں امام صاحب کی تقریر اور دین کی باتوں سے آپ بھی مستفیض ہوسکیں گے، اس سے آپ کا ایمان تازہ ہوگا، نفس کی اصلاح ہوگی۔ (رقم الفتوی : 60191)

تاہم اگر کوئی اس کے باوجود بالخصوص غیرعالم کی تقریر کے دوران نفل نماز یا تلاوت میں مشغول رہے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ البتہ بالکل مقرر کے سامنے یا اس کے قریب یہ اعمال انجام نہ دے تاکہ خود اسے اور مقرر و سامعین سمیت کسی کو خلل نہ ہو اور انتشار کا اندیشہ نہ رہے۔ بلکہ پیچھے کے حصے میں دیوار یا ستون کی آڑ میں یا پھر مسجد کے اوپری حصہ میں ان اعمال کو انجام دے۔

درج بالا تفصیلات سے آپ کے پہلے سوال کا جواب واضح ہوچکا ہے۔ دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ مقرر کو بھی نماز اور تلاوت میں مشغول رہنے والوں کو مطلقاً نہیں روکنا چاہیے، بلکہ اوپر بیان کی گئی ہدایات کے مطابق ہی کچھ کہنا چاہیے۔

عن عبد اللّٰہ بن عمرو رضي اللّٰہ عنہ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: بلغوا عني ولو آیۃ۔ (صحیح البخاري، رقم : ۳۴۶۱)

الْأَمْرُ بِالْمَعْرُوفِ يَحْتَاجُ إلَى خَمْسَةِ أَشْيَاءَ، أَوَّلُهَا : الْعِلْمُ لِأَنَّ الْجَاهِلَ لَا يُحْسِنُ الْأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ٥/٣٥٣)

التَّذْكِيرُ عَلَى الْمَنَابِرِ لِلْوَعْظِ وَالِاتِّعَاظِ سُنَّةُ الْأَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِينَ۔ (شامی : ٦/٤٢١)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
06 شوال المکرم 1443

1 تبصرہ:

بوگس ووٹ دینے کا حکم