*حج و عمرہ کے لئے جانے والوں کی دعوت اور تحائف کا حکم*
سوال :
عمرہ پر جانے والے ایک صاحب نے رشتہ داروں کو دعوت دی تاکہ سب مل ملا لیں اور کہا کہ اللہ واسطے کچھ تحفہ مت لانا لیکن اس کے باوجود تقریباً سب لوگ کپڑا تحفہ لے کر آئے کسی کا دل نہ ٹوٹے اس لیے تحفہ قبول کر لیا گیا۔ پوچھنا یہ ہے کہ
1) اس موقع پر اس نیت سے دعوت دینا کیسا ہے؟
2) یہ بات مشہور ہے کہ تحفہ لیں گے تو پھر عمرہ سے واپسی پر دینا بھی ہوگا، تو کیا یہ بدگمانی تو نہیں ہے؟
3) اللہ کا واسطہ دے کر تحفہ لانے سے روکنا کیسا ہے؟
4) اسکے بعد بھی تحفہ لے آئیں تو کیا قبول کرنا چاہیے؟
5) اگر نہ لینا تھا اور لے لیا تو کیا اب واپس کردینا چاہئے؟
6) حج پر جانے والوں کو عزیز اقارب کی جانب سے دعوت دی جاتی ہے اگر کوئی دعوت قبول نا کرے تو کیا وہ گناہ گار ہوگا؟
7) حج سے آنے کے بعد حاجی تحائف تقسیم کرتے ہیں اس کی کیا حقیقت ہے؟ اگر کسی حاجی کی معاشی حالت بہتر نہیں اس کے پاس صرف سفر حج کی رقم ہے تو کیا قرض لے کے تحائف تقسیم کرنا ضروری ہے؟
(المستفتی : فضل الرحمن/غلام دستگیر، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : حج یا عمرہ کے لئے جانے سے پہلے رشتہ دار دوست و احباب کی دعوت کرنا تاکہ سب سے ملاقات بھی ہوجائے فی نفسہ جائز تو ہے لیکن چونکہ آج کل ان دعوتوں میں کئی مفاسد سامنے آرہے ہیں، مثلاً اس دعوت کو ضروری سمجھنا، اس میں تحفہ کے لین دین کو ضروری سمجھنا، فضول خرچی کرنا وغیرہ جس کی وجہ سے اب اس کا ترک کردینا ہی زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔
٢) ایسا سوچنا بدگمانی نہیں کہلائے گی، بلکہ بدگمانی یہ ہے کہ ہدیہ دینے والے کے خلوص پر شک کیا جائے اور یہ سمجھا جائے کہ واپسی کی امید پر یہ ہدیہ دیا جارہا ہے۔
٣) درست ہے۔ بلکہ احتیاط تو اس میں ہے کہ دعوت کا اہتمام ہی نہ کیا جائے۔
٤) قبول کرلینا یا واپس کردینا دونوں باتوں کا اختیار ہے۔
٥) تحفہ قبول کرلینے کے بعد اس کا واپس کرنا ضروری نہیں ہے۔
٦) اس موقع پر دی جانے والی دعوت قبول کرنا اور نہ قبول کرنا دونوں جائز ہے۔ قبول نہ کرنے کو گناہ سمجھنا درست نہیں۔
٧) حج یا عمرہ سے آنے والوں کا اپنی قریبی رشتہ داروں یا متعلقین کو زم زم، کھجور یا کسی اور چیز کا تحفہ دینا شرعاً صرف جائز ہے۔ فرض یا واجب نہیں۔ لہٰذا اگر کسی حاجی یا عمرہ کرنے والے کی استطاعت نہ ہوتو وہ قطعاً اس کی تکلیف نہ کرے کہ تحفہ دینے کے لیے قرض لے۔ بلکہ تحفہ دینے کو شرعاً ضروری سمجھے گا تو یہ عمل ناجائز اور گناہ بن جائے گا۔ اس لیے کہ ایک جائز عمل کو اس کی حیثیت سے بڑھا دیا گیا ہے۔
تمام سوالات کے جوابات کا خلاصہ یہی ہے کہ حتی الامکان عازم عمرہ یا حج کا خود یا دوسروں کو عازم حج یا عمرہ کے لیے دعوت کا اہتمام کرنے احتراز کرنا چاہیے، اسی طرح اس موقع پر تحفہ تحائف کے لین دین سے بھی جہاں تک ہوسکے اجتناب کیا جائے کیونکہ رفتہ رفتہ یہ چیزیں حج و عمرہ کا حصہ بن سکتی ہیں اور پھر استطاعت نہ رکھنے والے بھی قرض وغیرہ لے کر اس کا اہتمام کریں گے۔ اور اس تکلیف دہ رسم کا ختم کرنا انتہائی مشکل ہوجائے گا۔
عن عائشۃ ؓ قالت : قال رسول اللہ ﷺ : تہادوا تحابوا الحدیث۔ (المعجم الأوسط للطبرانی، رقم : ۷۲۴۰)
قال الله تبارک وتعالیٰ: وَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا اِنَّہُ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ۔ (سورۂ اعراف: ۳۱)
قال الله تبارک وتعالیٰ : اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْا اِخْوَانَ الشَّیَاطِیْن وَکَانَ الشَّیْطَانُ لِرَبِّہٖ کَفُوْرًا۔ (سورۃ بنی اسرائیل : ۲۷)
عن أنس بن مالک أن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم قال: لایحل مال امرئ مسلم إلا بطیب نفسہ۔ (سنن الدارقطني، کتاب البیوع، ۳/۲۲، رقم: ۲۷۶۲)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
26 شوال المکرم 1443
جزاک اللہ خیرا
جواب دیںحذف کریںماشاءاللہ
جواب دیںحذف کریںماشاءاللہ
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ
جواب دیںحذف کریںفتوی یقینا قابل تائیدو لائق تحسین ھےاوریہ بات کہ جائز عمل کواسکی حیثیت سے بڑھاناگناہ ھےایک اصول ھے جسکاتعلق صرف جائز اعمال سےنہیں بلکہ مستحبات سے بھی ھےانکاالتزام بھی اعتقادااورعملادونوں طرح گناہ ھےخورشیدانور مراداباد
جواب دیںحذف کریںماشاء اللہ اللہ آپ کے علم میں برکت عطا فرمائے
حذف کریںالسلام علیکم مفتی صاحب
جواب دیںحذف کریںماشاء اللہ بہت خوب
اللہ آپ کے علم میں برکت عطا فرمائے
Sahi bilkul sahi deen me kisi naee baat ka ijad krna rivaj ko aam krna glat hai.. Balke deen me bigad hai.. Haj ek farz hai jo istetaat rakhte hain.. Aur Allah k liye hai... Fir ek nae chiz tuhfa vagaira dawat tabsare ye sab bigad paida krte hain and wastage of time....c
جواب دیںحذف کریں