سوال :
محترم مفتی صاحب درج ذیل مسئلے کا شرعی حکم عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی۔ زید ایک مسجدکے پیش امام تھے جو امامت کے فرائض فی سبیل اللہ انجام دے رہے تھے مکان بدل جانے کی وجہ سے صرف جمعہ کی امامت کررہے تھے، ٹرسٹیان نے ایک حافظ قرآن کو نائب امام مقرر کرلیا۔ پیش امام صاحب کا انتقال ہوگیا اس کے بعد کیا نائب امام پیش ہوجائیں گے؟ کیا ٹرسٹیان کی جانب سے تقرری کی جائے گی؟ مرحوم پیش امام کے فرزند جو صرف مکمل حافظ قرآن ہیں جو صرف فجر کی نماز جمعہ کی نماز فی سبیل للہ امامت کرنے کو تیار ہیں، مگر وہ ٹی شرٹ اور پینٹ پہنتے ہیں کیا وہ امامت کے فرائض ادا کرسکتے ہیں؟ کیا یہ معاملہ وراثت در وراثت کا تو نہیں بنتا؟ اس مسئلے کا شرعی جواب دے کر مشکور وممنون فرمائیں۔
(المستفتی : محمد عمر، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ایسا کوئی قاعدہ اور ضابطہ نہیں ہے کہ امام کے انتقال کے بعد نائب امام اصل امام ہوجائیں گے۔ متولیان کو اس بات کا پورا پورا اختیار ہے کہ وہ نائب امام کو ان کے عہدے پر برقرار رکھتے ہوئے کسی اور مستند قاری حافظ عالم کو امامت کے لیے مقرر کریں۔ یا اگر نائب امام حافظ، عالم قاری ہوں نیز نمازوں کے پابند اور مصلیان کی اکثریت ان سے خوش ہوتو انہیں ہی اصل امام مقرر کیا جاسکتا ہے۔ مرحوم امام کے فرزند اگر عالم نہیں ہیں تو انہیں عالم حافظ پر ترجیح دینا بہتر نہیں، اور اگر وہ غیرمسنون لباس یعنی پینٹ شرٹ پہنتے ہیں تو پھر انہیں باقاعدہ امام بنانا بالکل بھی درست نہیں ہے۔
عن أبي مسعود الأنصاريؓ قال : قال رسول الله ﷺ : یؤم القوم أقرؤہم لکتاب الله ، فإن کانوا فی القراء ۃ سواء ، فأعلمہم بالسنۃ۔ (صحیح مسلم، رقم : ۶۷۳)
والأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلوٰۃ ثم الأحسن تلاوۃ وتجویداً للقراء ۃ ثم الأورع۔ (تنویر الابصار مع الدر، کتاب الصلاۃ ، باب الإمامۃ، ۱/۵۵۷)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
16 شوال المکرم 1443
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں