قارئین کرام! گرمی اپنے عروج پر ہے۔ دھوپ کی شدت کے ساتھ ساتھ ہوائیں بھی رکی ہوئی ہیں اور چلتی بھی ہیں تو گرم گرم ہواؤں کے جھکڑ چلتے ہیں۔ پنکھے اور کولر تک بے اثر ہورہے ہیں، عوام الناس کو کہیں بھی سکون نہیں ہے۔ ہر جگہ گرمی اور پسینے سے برا حال ہورہا ہے۔ اور ایسی سخت گرمی کی ایک اہم وجہ تشویشناک حد تک درختوں میں کمی واقع ہونا ہے۔ چنانچہ پیش نظر مضمون میں ہم درخت لگانے کے دنیوی واخروی فوائد بیان کریں گے تاکہ شجرکاری کی اہمیت وافادیت عوام کے سامنے آجائے اور اس اہم کام کو کرنے کی ترغیب ملے۔
محترم قارئین! یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ماحول میں درختوں کا وجود اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ درخت ہواؤں میں بہتری لاکر اسے جانداروں کے لیے مفید سے مفید تر بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، جس کی وجہ سے جانداروں کی صحت پر خوشگوار اثر مرتب ہوتا ہے۔ ان کی ٹھنڈی چھاؤں، پھل، پھول اور پتے اپنی الگ الگ خاصیت رکھتے ہیں اور جانداروں کے لیے لطف اور تفریح کا سبب بنتے ہیں۔ ان کے علاوہ بھی درختوں کے بہت سارے فوائد ہیں۔ اور یہ تو اس کے دنیوی فوائد ہیں، جبکہ متعدد احادیث میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے درخت لگانے کے بڑے بڑے فضائل بیان فرمائے ہیں جن کے مطالعہ کے بعد شجرکاری کی عظمت دل میں مزید بڑھ جاتی ہے۔ ذیل میں وہ احادیث نقل کی جارہی ہیں جن میں باقاعدہ درخت لگانے اور اس کے فضائل کا ذکر ہے۔
🟢 حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : جب کوئی مسلمان درخت لگاتا ہے، پھر اس (کے پھل، پتوں یا کسی بھی حصے) سے کوئی انسان یا جانور کھا لیتا ہے تو یہ اس کے لیے صدقہ شمار ہوتا ہے۔ (بخاری : 6012)
🟢 نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : جس شخص نے کوئی درخت اگایا، پھر اس میں سے جو کچھ بھی کھایا جائے تو وہ اس کے لیے صدقہ ہے، اور جو کچھ بھی چوری کیا جائے تو وہ اس کے لیے صدقہ ہے، اور جو کچھ بھی پرندہ اس میں سے کھالے تو وہ اس کے لیے صدقہ ہے۔ (مستخرج ابی عوانہ : 5186)
درج بالا دونوں احادیث میں کس قدر بڑے بڑے فضائل بیان کیے گئے ہیں کہ درخت میں سے اللہ تعالیٰ کی کوئی بھی مخلوق کچھ کھالے تو اس درخت لگانے والے کو اس کا اجر وثواب ملتا ہے۔ ظاہر ہے کہ درخت سے نجانے کتنے چھوٹے بڑے جاندار اپنے مزاج کے موافق کچھ نہ کچھ کھا ہی لیتے ہیں، یہاں تک کہ چوری چھپے کوئی کھالے تو یہ سب درخت لگانے والے کےلیے اجر کا باعث ہے۔ نیز درخت لگانے میں اگر وہ ثواب کی نیت نہ بھی کرے تب بھی اس کو اجر ملتا ہے کیوں کہ یہ مخلوقِ خدا کو نفع رسانی کے کام آرہا ہے جو بذاتِ خود نیکی ہے۔
🟢 حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کے پاس علم حاصل کرنے کی غرض سے کچھ طلبہ آئے، تو انھوں نے دیکھا کہ حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ درخت لگا رہے ہیں، تو ان طلبہ نے تعجب سے عرض کیا کہ آپ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابی ہوکر یہ دنیوی کام کررہے ہیں؟ تو حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ : جس شخص نے کوئی درخت اُگایا، تو اس میں سے کوئی انسان، پرندہ یا کوئی اور جانور جو کچھ بھی کھاتا ہے تو اللہ اس کو اس کا اجر دیتا ہے یہاں تک کہ وہ خشک نہ ہوجائے۔ (الترغیب والترہیب : 454)
اس سے معلوم ہوا کہ درخت لگانا کوئی دنیوی کام نہیں کہ اس کو دنیاوی کام سمجھ کر نظر انداز کیا جائے بلکہ درخت لگانا بڑے اجر وثواب کا کام ہے، اور یہ بھی معلوم ہوا کہ درخت کو پانی دیتے رہنا چاہیے تاکہ خشک ہوکر اس کے دنیوی واُخروی فوائد ختم نہ ہوجائیں۔
🟢 نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : جس نے کوئی عمارت تعمیر کی یا کوئی درخت لگایا کسی ظلم و زیادتی کے بغیر (یعنی جائز طریقے سے) تو جب تک مخلوقِ خدا اس سے فائدہ اٹھاتی رہے گی تو اس کو مسلسل اجر ملتا رہے گا۔ (مسند احمد : 15616(
🟢 آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : جب کوئی شخص کوئی درخت اگاتا ہے تو جتنا پھل اس میں سے نکلتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے بقدر اس کے لیے اجر لکھ دیتا ہے۔ (مسند احمد : 23520)
کتنی بڑی فضیلت کی بات ہے کہ درخت پر جتنے پھل لگیں گے اتنا ہی اجر ملتا رہے گا۔
🟢 حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : سات طرح کی چیزیں ایسی ہیں جن کا اجر انسان کو موت کے بعد بھی ملتا رہتا ہے حالاں کہ وہ قبر میں ہوتا ہے :
١) علم سکھانے کا۔
٢) نہر کھدوانے کا۔
٣) کنواں کھدوانے کا۔
٤) درخت لگانے کا۔
٥) مسجد بنانے کا۔
٦) قرآن مجید وراثت میں چھوڑ جانے کا (کہ لوگ اس سے تلاوت کرتے رہیں)۔
٧) ایسی اولاد چھوڑ جانے کا جو اس کے لیے موت کے بعد استغفار کرتی ہو۔ (معجم ابی یعلی : 7289)
اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ درخت لگانا صدقہ جاریہ ہے، جس کا اجر مرنے کے بعد بھی ملتا رہے گا۔
🟢 حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : اگر قیامت قائم ہونے لگے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں پودا ہو (جس کو وہ لگانا چاہ رہا ہو) تو اگر قیامت قائم ہونے سے پہلے اسے لگا سکتا ہے تو ضرور لگالے۔ (اتحاف الخيرة المہرة : 2944)
یعنی درخت لگانا اس قدر اہم اور کر گزرنے والے کاموں میں سے ہے کہ اگر قیامت قائم ہونے لگے اور کسی کے ہاتھ میں پودا ہو جس کو وہ لگانا چاہ رہا ہو تو اگر قیامت قائم ہونے سے پہلے اسے لگا سکتا ہے تو لگالے۔
امید ہے کہ درج بالا تفصیلات سے اس بات کا بخوبی علم ہوگیا ہوگا کہ درخت لگانا دنیوی اور اخروی دونوں لحاظ سے کس قدر نفع بخش عمل ہے۔ لہٰذا انفرادی اور اجتماعی طور پر شجرکاری کرنا چاہیے اور دوسروں کو اس کی ترغیب بھی دینا چاہیے۔
شہر میں بعض افراد نے باقاعدہ شجرکاری کو اپنا مشن بنایا ہوا ہے، بلاشبہ یہ ایک اچھا اور نیک عمل ہے۔ عوام کو ان کے ساتھ سنجیدگی سے جڑ کر ان کے مشن کو کامیاب کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ اور ماحول کو خوشگوار اور فرحت بخش بنانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں کارپوریشن اور اس کے اراکین سے جو کچھ بھی مدد مل سکتی ہے لی جائے اور شہر کو ہرا بھرا کیا جائے کہ یہ وقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دنیا وآخرت میں فائدہ دینے والے اس عمل کو کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور اپنے فضل سے اس شدت کی گرمی میں تخفیف فرمائے۔ آمین
جزاک اللہ خیراً کثیرا، ان شاء اللہ اب سے میں بھی اس نیک کام کو کرنے کی ہر ممکن کوشش کرونگا۔
جواب دیںحذف کریں