سوال :
مفتی محترم! امید ہے بخیر ہونگے اللہ مالک الملک کے فضل سے۔
عرض تحریر یہ ہیکہ ایک کتاب ہے جسکا نام "حیرت انگیز واقعات" ہے جو میں نے بہت پہلے پڑھی تھی میرے ایک دوست کی درخواست پر۔ مصنف کا نام میں بھول گیا لیکن معلوم کرکے بتا سکتا ہوں ۔ اس میں ایک شخص کا واقعہ تھا جسکا نام عوج بن عنق تھا جسکے بارے میں تفصیل یہ تھی کے وہ آدم علیہ السلام کی اولاد میں سے تھا جو بہت قدآور تھا عاد و ثمود سے بھی زیادہ۔ اور جسکی عمر تقریباً ساڑھے تین ہزار سال رہی ۔ وہ بڑا ظالم تھا انسانوں کا شکار کرتا انھیں مارتا۔ یہ شخص آدم علیہ السلام سے لیکر دور موسیٰ علیہ السلام تک وقتاً فوقتاً ظلم کرتا رہا اور پھر دور موسیٰ علیہ السلام میں موسیٰ علیہ السلام نے اسکا خاتمہ کیا۔
معاملہ یہ کہ اس کتاب کے علاوہ میں نے یہ واقعہ اور بھی کئی لوگوں سے سنا ہے۔
جاننا یہ تھا کے واقعی کوئی ایسا انسان تھا جو آدم علیہ السلام کی اولاد میں سے تھا اور اسقدر لمبی عمر والا اور اسقدر خطرناک حیوانیت والا تھا؟ یا یہ من گھڑت واقعات میں سے ایک واقعہ ہے؟ گزارش ہیکہ شریعت کی رہنمائی میں جواب دیکر مدد کریں۔
(المستفتی : محمد حارث، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : عوج بن عنق نامی شخص سے متعلق مفسرین اور محققین علماء نے جو کچھ لکھا ہے ہم یہاں اسے من وعن نقل کررہے ہیں۔
معارف القرآن میں ہے :
اس موقع پر اکثر کتب تفسیر میں اسرائیلی روایات کی لمبی چوڑی کہانیاں درج ہیں جن میں اس ملنے والے شخص کا نام عوج بن عنیق بتلایا ہے۔ اور اس کی بے پناہ قدوقامت اور قوت و طاقت کو ایسی مبالغہ آمیزی کے ساتھ بیان کیا ہے کہ کسی سمجھ دار آدمی کو اس کا نقل کرنا بھی بھاری ہے۔
امام تفسیر ابن کثیر نے فرمایا کہ عوج بن عنق کے جو قصے ان اسرائیلی روایات میں مذکور ہیں نہ عقل ان کو قبول کرسکتی ہے اور نہ شرع میں ان کا کوئی جواز ہے۔ بلکہ یہ سب کذب و افترا ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ قوم عمالقہ کے لوگ چونکہ قوم عاد کے بقایا ہیں جن کے ہیبت ناک قدوقامت کا خود قرآن کریم نے ذکر فرمایا ہے۔ اس قوم کا ڈیل ڈول اور قوت و طاقت ضرب المثل تھی۔ ان کا ایک آدمی قوم بنی اسرائیل کے بارہ آدمیوں کو گرفتار کرکے لے جانے پر قادر ہوگیا۔ (ص : 695)
تفسیر ابن کثیر میں ہے :
مفسرین نے یہاں پر اسرائیلی روایتیں بہت سی بیان کی ہیں کہ یہ لوگ اس قدر قوی تھے، اتنے موٹے اور اتنے لمبے قد تھے، انہی میں عوج بن عنق بن حضرت آدم تھا، جس کا قد لمبائی میں (3333) تین ہزار تین سو تیتس گز کا تھا، اور چوڑائی اس کے جسم کی تین گرز کی تھی لیکن یہ سب باتیں واہی ہیں، ان کے تو ذکر سے بھی حیا مانع ہے، پھر یہ صحیح حدیث کے خلاف بھی ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو ساٹھ ہاتھ پیدا کیا تھا، پھر سے آج تک مخلوق کے قد گھٹتے ہی رہے، ان اسرائیلی روایتوں میں یہ بھی ہے کہ عوج بن عنق کافر تھا اور ولد الزنا تھا یہ طوفان نوح میں تھے اور حضرت نوح کے ساتھ ان کی کشتی میں نہ بیٹھا تھا، تاہم پانی اس کے گھٹنوں تک بھی نہ پہنچا تھا۔ یہ محض لغو اور بالکل جھوٹ ہے بلکہ قرآن کے خلاف ہے، قرآن کریم میں نوح کی دعا یہ مذکور ہے کہ زمین پر ایک کافر بھی نہ بچنا چاہئے، یہ دعا قبول ہوئی اور یہی ہوا بھی، قرآن فرماتا ہے " ہم نے نوح کو اور ان کی کشتی والوں کو نجات دی، پھر باقی کے سب کافروں کو غرق کردیا "۔ خود قرآن میں ہے کہ " آج کے دن بجز ان لوگوں کے جن پر رحمت حق ہے، کوئی بھی بچنے کا نہیں " تعجب سا تعجب ہے کہ نوح کا لڑکا بھی جو ایماندار نہ تھا بچ نہ سکے لیکن عوج بن عنق کافر ولد الزنا بچ رہے۔ یہ بالکل عقل و نقل کے خلاف ہے بلکہ ہم تو سرے سے اس کے بھی قائل نہیں کہ عوج بن عنق نامی کوئی شخص تھا واللہ اعلم۔ (ص : 693)
تفسیر مظہری میں ہے :
بعض اقوال میں آیا ہے کہ صرف ایک کافر یعنی عوج بن عنق ڈوبنے سے بچ گیا تھا، طوفان کا پانی اس کی کمر تک آیا تھا۔ محفوظ رہنے کی وجہ یہ تھی کہ کشتی کے لیے سار کی لکڑیوں کی ضرورت تھی اور ان کو ڈھونا ممکن نہ تھا تو اس نے ملک شام سے خود لا کر حضرت نوح کو لکڑیاں دی تھیں۔
میں کہتا ہوں : عوج کی یہ داستان قرآن مجید کی ظاہری عبادت کے خلاف ہے۔ اللہ نے تو فرمایا ہے : قَالَ نُوْحٌ رَبِّ لاَ تَذَرْ عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْکَافِرِیْنَ دَیَّارًا۔ دوسری آیت میں ہے : قِیْل بُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظَّلِمِیْنَ اس سے پہلے آیا ہے : لاَ عَاصِمَ الْیَوْمَ مِنْ اَمْرِ اللّٰہِ الاَّ مَنْ رَّحِمَ (ان تمام آیات سے معلوم ہو رہا ہے کہ کوئی کافر زندہ نہیں بچا تھا) عموم آیات سے کسی کی تخصیص بغیر قطعی نص کے ممکن نہیں اور قصۂ مذکورہ کی تائید نہ عقل سے ہوتی ہے نہ نقل سے (عوج کا قصہ محض افسانہ اور داستان ہے)۔ (ص : 1526)
تفسیر ذخیرۃ الجنان میں ہے :
یہ جو قصہ بنا ہوا ہے کہ ایک آدمی تھا عوج بن عنق۔ اس کا قداتنا لمبا تھا کہ یہ طوفان اس کے ٹخنوں تک آیا تھا اور وہ مچھلیاں پکڑپکڑکرسورج پر بھون کر کھاتا تھا یہ یہودیوں کی خرافات میں سے ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ سورة نوح پارہ ٢٩ میں ہے نوح (علیہ السلام) نے کہا رب لاتذرعلی الارض من الکفرین دیارا، اے میرے رب نہ چھوڑ زمین پر کافروں کا ایک گھربسنے والا۔ تو صرف وہی بچے جو کشتی میں سوار ہوئے۔ نوح (علیہ السلام) کو بیٹا کنعان بھی نہ بچ سکا کہ کشتی میں سوار نہیں ہوا تھا۔ (3772)
ایک حدیث شریف میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو جب پیدا کیا تو ان کا قد ساٹھ ہاتھ تھا۔ اس حدیث کے اخیر میں یہ الفاظ ہیں : (فَلَمْ يَزَلْ الْخَلْقُ يَنْقُصُ بَعْدُ حَتَّی الْآنَ) یعنی اس کے بعد مخلوق کے قد میں کمی واقع ہوتی رہی حتی کہ معاملہ ہم تک پہنچا۔ (متفق علیہ)
اس حدیث کی بناء پر علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے فتح القدیر سورہ مائدہ کی تفسیر میں اور مشہور حنفی فقیہ اور محدث ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے الموضوعات الکبیر میں عوج بن عنق نامی شخص جس کی قد وقامت میں انتہائی مبالغہ سے کام لیا گیا ہے اس کے واقعہ کو من گھڑت قرار دیا ہے۔
خلاصہ یہ کہ سوال نامہ میں عوج بن عنق نامی شخص سے متعلق جو مافوق الفطرت باتیں مذکور ہیں وہ سب کے سب ان اسرائیلی روایات سے ہیں جو قرآن و حدیث کے خلاف ہیں، لہٰذا ان کا بیان کرنا درست نہیں۔
قال ابن كثير رحمه الله : وَالْمَقْصُودُ أَنَّ اللهَ لَمْ يُبْقِ مِنَ الْكَافِرِينَ دَيَّارًا، فَكَيْفَ يَزْعُمُ بَعْضُ الْمُفَسِّرِينَ : أَنَّ عُوَجَ بْنَ عُنُقَ، وَيُقَالُ: ابْنَ عِنَاقَ، كَانَ مَوْجُودًا مِنْ قَبْلِ نُوحٍ إِلَى زَمَانِ مُوسَى. وَيَقُولُونَ: كَانَ كَافِرًا مُتَمَرِّدًا جَبَّارًا عَنِيدًا، وَيَقُولُونَ: كَانَ لِغَيْرِ رِشْدَةٍ، بَلْ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ عُنُقُ بِنْتُ آدَمَ مِنْ زِنًا، وَأَنَّهُ كَانَ يَأْخُذُ مِنْ طُولِهِ السَّمَكَ مِنْ قَرَارِ الْبِحَار، وَيَشْوِيهِ فِي عَيْنِ الشَّمْسِ، وَأَنَّهُ كَانَ يَقُولُ لِنُوحٍ، وَهُوَ فِي السَّفِينَةِ: مَا هَذِهِ الْقُصَيْعَةُ الَّتِي لَكَ، وَيَسْتَهْزِئُ بِهِ، وَيَذْكُرُونَ أَنَّهُ كَانَ طُولُهُ ثَلَاثَةَ آلَافِ ذِرَاعٍ وَثَلَاثِمِائَةٍ وَثَلَاثَةٍ وَثَلَاثِينَ ذِرَاعًا وَثُلُثًا، إِلَى غَيْرِ ذَلِكَ مِنَ الْهَذَيَانَاتِ الَّتِي لَوْلَا أَنَّهَا مُسَطَّرَةٌ فِي كَثِيرٍ مِنْ كُتُبِ التَّفَاسِيرِ، وَغَيْرِهَا مِنَ التَّوَارِيخِ، وَأَيَّامِ النَّاسِ، لَمَا تَعَرَّضْنَا لِحِكَايَتِهَا لِسَقَاطَتِهَا، وَرَكَاكَتِهَا، ثُمَّ إِنَّهَا مُخَالِفَةٌ لِلْمَعْقُولِ وَالْمَنْقُولِ۔ (البداية والنهاية : 1/266، 268)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
11 شوال المکرم 1443
جزاک اللہ خیراً و احسن الجزاء
جواب دیںحذف کریںجزاکاللہ
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ
جواب دیںحذف کریںماشاء اللہ
حذف کریںجزاک اللہ خیرا
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ خیرًا
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ خیرا و احسن الجزاء ۔
جواب دیںحذف کریںسر آپ کی بات ٹھیک ہے لیکن ایک اور جگہ حضرت موسی علیہ اسلام کا کسی بڑے اور لمبے قد والے سے جنگ کا بھی ذکر پڑھا تھا جس کو دیکھ کر موسی علیہ اسلام کی ساری فوج بھاگ گٸی تھی صرف ہارون علیہ اسلام ساتھ رہ گۓ تھے۔
جواب دیںحذف کریںاس کہانی کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں
میں نے بھی قصص الانبیاء میں یہ پڑھا تھا کہ عوج بن عنق لمبے قد والا تھا اور سورج کی گرمی سے مچھلی پکاتا
جواب دیںحذف کریںاور پھر خضرت موسی علیہ السلام نے اسے قتل کیا اور عوج بن عنق کا تعلق عمالقہ سے تھا