جمعرات، 12 مئی، 2022

نفل روزہ رکھنے کے بعد توڑ دے تو؟

سوال :

مفتی صاحب! امید کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔
نفلی روزے ( شوال، یوم عرفہ، عاشوراء) وغیرہ یا دیگر نفلی روزے جیسے پیر و جمعرات اور ایام بیض کے، اگر کوئی شخص روزہ توڑ دیتا ہے تو کیا اس پر قضاء واجب ہے؟ یا جیسا کہ حدیث میں ہے کہ وہ امیر نفسہ ان شاء صام و ان شاء افطر اس پر قضاء واجب نہیں ہے۔
(المستفتی : محمد راشد، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : احناف کے یہاں نفل روزہ شروع کرنے کے بعد اگر توڑ دیا جائے تو بعد میں اس کی قضا واجب ہوتی ہے خواہ کسی عذر کی وجہ سے توڑے یا بغیر کسی عذر کے۔ اس لیے کہ نفل شروع کرنے سے پہلے پہلے نفل رہتا ہے۔ لیکن شروع کرنے کے بعد وہ نذر نفلی ہوجاتا ہے۔ اور نذر کو پورا کرنا واجب ہے۔

سوال نامہ میں جس حدیث شریف کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ "نفل روزہ رکھنے والا اپنے نفس کا مالک ہے چاہے روزہ رکھے چاہے افطار کرے۔" اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ نفل روزہ رکھنے والا خود مختار ہے کہ ابتداءً چاہے تو روزہ رکھے یعنی روزہ کی نیت کرے، چاہے افطار کرے یعنی روزہ نہ رکھنے کو اختیار کرے، یا پھر اس کا مطلب یہ ہوگا کہ نفل روزہ رکھنے والا روزہ رکھنے کے بعد بھی اختیار ہے کہ چاہے تو اپنا روزہ پورا کرے چاہے تو توڑ ڈالے، اس صورت میں اس کی تاویل یہ ہوگی کہ نفل روزہ دار کو اس بات کا اختیار ہے کہ اگر اس کے پیش نظر کوئی مصلحت ہو مثلاً کوئی شخص اس کی ضیافت کرے یا کسی جماعت کے پاس جائے جس کے بارہ میں یہ معلوم ہو کہ اگر روزہ توڑ کر ان کے ساتھ کھانے پینے میں شریک نہیں ہوگا تو لوگ وحشت و پریشانی میں مبتلا ہو جائیں گے تو اس صورت میں وہ روزہ توڑ سکتا ہے تاکہ آپس میں میل ملاپ اور محبت و الفت کی فضا برقرار رہے۔ لہٰذا ان الفاظ و معانی سے یہ استدلال نہیں کیا جا سکتا کہ نفل روزہ توڑنے کے بعد اس کی قضا ضروری نہیں ہے کیونکہ ترمذی شریف کی ہی ایک دوسری روایت بڑی وضاحت کے ساتھ قضا کے ضروری ہونے کو ثابت کر رہی ہے جو درج ذیل ہے :

حضرت عروہ رحمہ اللہ حضرت عائشہ ؓ سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا : ایک دن میں اور حفصہ ؓ دونوں روزے سے تھیں کہ ہمارے سامنے کھانا لایا گیا ہمیں اس کو کھانے کی خواہش ہوئی چنانچہ ہم نے کھا لیا اب ہمارے بارہ میں کیا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اس کے بدلہ بطور قضا ایک دن روزہ رکھو۔

عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ کُنْتُ أَنَا وَحَفْصَةُ صَائِمَتَيْنِ فَعُرِضَ لَنَا طَعَامٌ اشْتَهَيْنَاهُ فَأَکَلْنَا مِنْهُ فَجَائَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَدَرَتْنِي إِلَيْهِ حَفْصَةُ وَکَانَتْ ابْنَةَ أَبِيهَا فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا کُنَّا صَائِمَتَيْنِ فَعُرِضَ لَنَا طَعَامٌ اشْتَهَيْنَاهُ فَأَکَلْنَا مِنْهُ قَالَ اقْضِيَا يَوْمًا آخَرَ مَکَانَهُ۔ (سنن الترمذی، رقم : ٧٣٥)

ومن دخل في صلاۃ التطوع أو في صوم التطوع ثم أفسدہ قضاہ۔ (ہدایۃ : ۲؍۱۲۳، مکتبۃ البشریٰ، کراچی)

لا خِلافَ بَيْنَ أصْحابِنا - رَحِمَهُمُ اللَّهُ - فِي وُجُوبِ القَضاءِ إذا فَسَدَ عَنْ قَصْدٍ أوْ غَيْرِ قَصْدٍ بِأنْ عَرَضَ الحَيْضُ لِلصّائِمَةِ المُتَطَوِّعَةِ، خِلافًا لِلشّافِعِيِّ۔ (فتح القدیر : ٢/٣٦٠)

إنَّ الشُّرُوعَ فِي التَّطَوُّعِ سَبَبُ الْوُجُوبِ كَالنَّذْرِ فَإِذَا وَجَبَ الْمُضِيُّ فِيهِ وَجَبَ الْقَضَاءُ بِالْإِفْسَادِ۔ (بدائع الصنائع : ٢/٨٠)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
10 شوال المکرم 1443

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

بوگس ووٹ دینے کا حکم