نذرانہ تراویح
غلط فہمی اور اس کا ازالہ
قارئین کرام ! نذرانہ تراویح سے متعلق ہمارے یہاں ایک بڑے طبقہ میں یہ غلط فہمی عام ہوگئی ہے کہ رمضان المبارک میں ختم قرآن کے موقع پر امام، مؤذن اور امام تراویح کو نذرانہ دینا جائز نہیں ہے۔ زیر نظر مضمون میں ہم اس غلط فہمی کے ازالہ کی کوشش کریں گے۔
محترم قارئین ! سب سے پہلے یہ بات اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ امام (اگرچہ وہی امام تراویح بھی ہو) اور مؤذن کو جو نذرانہ رمضان المبارک میں دیا جاتا ہے وہ بلاشبہ جائز اور درست ہے، اس لئے کہ یہ تراویح کی اجرت کے طور پر نہیں ہے بلکہ یہ امام کو سال بھر امامت کرنے اور مؤذن کو ان کی ذمہ داری ادا کرنے کی وجہ سے اکراماً دیا جاتا ہے، جسے عرفِ عام میں "حقِ رضا" یا "عید بونس" بھی کہا جاسکتا ہے۔ خواہ یہ تراويح میں ختم قرآن کے موقع پر دیا جائے یا اس کے پہلے یا پھر بعد میں دیا جائے اور یہ رقم خصوصی طور پر چندہ کرکے دی جائے یا مسجد کی جمع شدہ رقم سے ہو شرعاً اس میں کوئی قباحت یا کراہت نہیں ہے اور یہ متفقہ مسئلہ ہے، اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ لہٰذا جو لوگ ائمہ کرام اور مؤذنین سے متعلق غلط فہمی میں ہیں وہ اپنی غلط فہمی براہ کرم دور کرلیں۔
اصل اختلاف ان حفاظ کرام سے متعلق ہے جو صرف تراویح میں قرآن سناتے ہیں، اس کے علاوہ ان کی اور کوئی ذمہ داری نہیں ہوتی۔ البتہ اس میں بھی امارت شرعیہ بہار کے مفتیان کرام نے تراويح میں قرآن کریم سنانے کی اہمیت و افادیت کے پیش نظر گنجائش لکھی ہے اور خود ہمارے شہر کے مفتی اعظم مفتی سراج صاحب دامت برکاتہم نے بھی اس کے جواز پر مدلل فتوی لکھا ہے۔
معزز قارئین ! نذرانہ تراویح کے جائز یا ناجائز ہونے اور اس پر پیش کئے گئے دلائل سے قطع نظر ہم چند حقائق آپ کے سامنے رکھیں اور فیصلہ آپ پر ہی چھوڑ دیں گے کہ آپ کو اس سلسلے میں کیا کرنا ہے؟
اس بات کا آپ کو خیال رکھنا چاہیے کہ تراویح سنانے والا حافظ قرآن متعدد چیزوں سے بیک وقت نبرد آزما ہوتا ہے جن کا اکثر مصلیان کو اندازہ بھی نہیں ہوتا۔ ان میں سے ایک مصلے کا پریشر ہے۔ دوسرے متعینہ رکعتوں کا خیال رکھنا ہے۔ تیسرے اپنے یومیہ سبق کے کوٹے کو متعینہ رکعتوں پر تقسیم کرکے پورا کرنا۔ چوتھے اس بات کی فکر کہ اپنے متعینہ حصے کو غلطیوں اور مشابہت سے پاک پڑھا جائے۔ پانچویں کہیں وقت زیادہ نہ لگ جائے۔ چھٹے دن کو سنانے کا تیاری کرنا۔ ساتویں افطاری میں انتہائی احتیاط سے اور بالکل کم کھانا اور اس کا خیال رکھنا کہ گلا خراب نہ ہو۔ آٹھویں قران مکمل ہونے تک ایک پہاڑ جیسی فکر کا سر پر سوار ہونا۔
اب آپ ہمیں بتائیں کہ تقریباً مہینہ بھر اپنی ساری مصروفیات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے انتہائی خلوص، محنت اور جانفشانی سے قرآن سنانے والا حافظ قرآن (ہمارے متعلقین میں ایسے حفاظ کرام بھی ہیں جو روزآنہ سات آٹھ گھنٹے قرآن کریم یاد کرتے ہیں اس کے بعد مصلے پر پہنچتے ہیں) کیا مصلیان کے حسن سلوک کا حقدار نہیں ہے؟ کیا مصلیان کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ اس حافظ قرآن کی خدمت استطاعت سے بڑھ کر نہ سہی بقدر استطاعت تو ضرور کریں؟ اسے ہدیہ تحفہ دے کر قرآن اور حافظ قرآن کے تئیں اپنی محبت کا اظہار کریں؟
اب اگر حفاظ کرام کی ایسی بے بدل محنت، قربانی اور خلوص کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی مصلی انفرادی طور پر (جس کے جواز میں کوئی شک ہی نہیں ہے) یا چند مصلیان مل کر یا پھر متولیانِ مسجد خاموشی سے بغیر کسی شور شرابہ کے اور برضا ورغبت خصوصی (ناکہ عمومی) چندہ کرکے تراویح میں قرآن سنانے والے حفاظ کرام کی خدمت میں ہدیہ تحفہ پیش کر دیں تو یہ ناجائز کیسے ہوجائے گا؟؟؟
فیصلہ آپ کے ہاتھوں میں ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآن اور حافظ قرآن کی محبت عطا فرمائے اور ان کے شایان شان ان کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
ماشاء اللہ
جواب دیںحذف کریںآمین یا رب العالمین
جزاک اللہ خیرا کثیرا اللہ تعالیٰ آپ راضی و خوش ہو 🤲🤲🤲
حذف کریںصحیح فرمایا حضرت
جواب دیںحذف کریںصحیح بات ھے ماشااللہ بہوت خوب
جواب دیںحذف کریںجی بجا فرمایا آپ نے
حذف کریںبلکل صحیح فرمایا
حذف کریںماشاءاللہ بہت خوب
جواب دیںحذف کریںماشاءاللہ بہت ہی عمدہ تحریر ہے
جواب دیںحذف کریںماشاءاللہ جزاک اللہ خیرا واحسن الجزاء
جواب دیںحذف کریںبلکل درست فرمایا آپ نے ماشاءاللہ
جواب دیںحذف کریںJoin me
جواب دیںحذف کریںماشاءاللہ بھت عمدہ اور بھترین تحریر ہے
جواب دیںحذف کریںبہت ہی اچھے انداز میں سمجھایا مفتی صاحب آپ نے
جواب دیںحذف کریںاللہ آپ کے علم و عمل میں برکت عطا فرمائے آمین
ماشاءاللہ اللھم زد فرد، 🌹🌹🌹
جواب دیںحذف کریںقابل تعریف اور جامع تحریر
جواب دیںحذف کریںMasha Allah bahot achche andaz
جواب دیںحذف کریںme aap ne wazahat ki hai
درست فرمایا آپ نے
جواب دیںحذف کریںجزاکم اللہ خیرا و احسن الجزاء
اللہ پاک آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے
جواب دیںحذف کریںمفتی صاحب! بہت ہی بہترین رہنمائی ۔
جواب دیںحذف کریںاللہ ٹرسٹیان کو سمجھ دے ۔کہ وہ صرف یہ کہہ کر کام چلا لیتے ہیں کہ یہ مختلف فیہ ہے ۔لہذا ہم کسی قسم کے ہدیہ کا انتظام نہیں کریں گے ۔
کیا یہ حافظ کے ساتھ انصاف کی بات ہوسکتی ہے ۔
مالیگاوں سے باہر تو اچھا نذرانہ دیا جاتاہے لیکن مالیگاوں میں بہت کم دیا جاتاہے
جواب دیںحذف کریںاس موضوع پر جمعہ کے دن پورے گاؤں میں بیان ہونا چاہیے
ماشاء اللہ بہت خوب
جواب دیںحذف کریںبالکل درست فرمایا آپ نے
جواب دیںحذف کریںماشاءاللہ زبردست رہنمائی فرمائی حضرت مفتی صاحب نے اللہ تعالی اپ کو اس کا بہترین بدلہ عطا فرمائے اور مساجد کے ٹرسٹیان کو صحیح سمجھ بھی عطا فرمائے
جواب دیںحذف کریں