سوال :
مفتی صاحب شب قدر کے چندے کے متعلق مسجد کے ذمہ داران نے فیصلہ لیا کہ انفرادی طور پر محلے میں گشت کرکے چندے کی وصولی کی جائے۔ اس طرح شب قدر کے چندے کی رقومات سے ختم قرآن کے روز امام مسجد، مؤذن اور حافظ صاحب کو نذرانہ پیش کیا جائے۔ مسجد میں ایک شخص نے شب قدر کے چندے کے بارے میں اعتراض کیا کہ اس طرح کا عمل خلافِ شریعت ہے، آپ سے رہنمائی کی درخواست ہے۔
(المستفتی : مختار احمد، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ہمارے یہاں عُرف میں شب قدر کا چندہ اسے کہا جاتا جو رمضان المبارک میں امام، مؤذن اور امام تراویح کو نذرانہ دینے کے لیے کیا جاتا ہے۔ اور بعض مساجد میں ختم قرآن کے وقت شیرینی کا نظم بھی اسی چندہ سے کیا جاتا ہے۔ لیکن سوال نامہ میں مذکور طریقہ پر شب قدر کا چندہ جمع کرنا بے غیرتی اور عار کی بات ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سی مسجدوں میں شب قدر کے نام سے اس طرح چندہ کرنا بند کردیا ہے۔ لہٰذا ذمہ داران کو یہ طریقہ بند کردینا چاہیے۔ ہر مصلی کو اپنی ذمہ داری سمجھ کر امام، مؤذن اور حافظ صاحبان کی بقدر استطاعت خدمت کرنا چاہیے، یا پھر متولیان کو بغیر کسی شور شرابہ کے خصوصی چندہ کرنا چاہیے جس میں برضا ورغبت چندہ کا لین دین ہو کسی پر کوئی زور زبردستی نہ ہو۔ اور شیرینی کے لیے کوئی چندہ ہی نہیں کرنا چاہیے بلکہ کوئی دین دار اور حلال آمدنی والا مصلی خود اپنی مرضی اور خوشی سے شیرینی کا نظم کرلے تو ٹھیک ہے، ورنہ شیرینی کا نظم کرنے کے لیے چندہ کرنے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔
عن أنس بن مالک أن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم قال : لایحل مال امرئ مسلم إلا بطیب نفسہ۔ (سنن الدارقطني، رقم : ۲۷۶۲)
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم : لَيْسَ مِنْ أُمَّتِي مَنْ لَمْ يُجِلَّ كَبِيرَنَا , وَيَرْحَمْ صَغِيرَنَا، وَيَعْرِفْ لِعَالِمِنَا حَقَّهُ۔ (صَحِيح التَّرْغِيبِ وَالتَّرْهِيب : 101)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
18 رمضان المبارک 1443
جزاکم اللہ خیرا و احسن الجزاء
جواب دیںحذف کریںاسی مسجد میں اسی وقت سفیروں کو بھی چندہ کرنے کے لئے منع کردیا جاتاتھا
جواب دیںحذف کریں🙊
حذف کریںجزاک اللہ خیرا و احسن الجزاء مفتی صاحب
جواب دیںحذف کریںاس مسجد میں ہر سال بارہ بارہ ہزار روپیہ امام اور موذن صاحب کو نذرانہ دیا جاتا ہے پیچھے لاک ڈاؤن کی وجہ سے زیادہ چندہ نہیں جمع ہو پایا تھا جس کی وجہ سے امام اور مؤذن کو پانچ پانچ ہزار نذرانہ دیا گیا تھا جس کی وجہ سے امام صاحب بہت ناراض ہوئے تھے اس لیے ذمہ داران کوشش کر کے زیادہ سے زیادہ چندہ جمع کرتے ہیں
جواب دیںحذف کریںاس بات کی تصدیق مسجد کے امام صاحب سے بھی کر سکتے ہیں
حذف کریںامام ومؤذن صاحبان کو مسجد کی جمع شدہ رقم میں سے بھی دیا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے الگ سے چندہ کرنا ضروری نہیں ہے۔ اور چندہ کرنا بھی ہوتو اس کا باوقار طریقہ ہونا چاہیے، یہ کیا کہ روزآنہ مصلیان کے سامنے رومال پھیلا دیا جائے۔
حذف کریںبہتر رائے ھے مفتی صاحب کی
جواب دیںحذف کریںیہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔
جواب دیںحذف کریںماشاء اللہ
جواب دیںحذف کریںالحمدللہ ہمارے یہاں مسجد حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ میں جواب نامہ میں جو مذکور ہے اسی طرح کیا جاتا ہے