سوال :
مفتی صاحب امید کہ بخیر ہوں گے۔ رہنمائی فرمائیں کہ عام دنوں میں یعنی رمضان المبارک کے علاوہ ہم نمازِ فجر اتنی تاخیر سے ادا کرتے ہیں کہ اُجالا پھیلنے لگتا ہے لیکن رمضان المبارک میں اتنی عجلت کیوں؟ نیز رمضان المبارک میں جلدی پڑھنے کی اور عام دنوں میں تاخیر سے پڑھنے کیا حکمت ہے؟ اس پر بھی روشنی ڈالیں تو بڑی مہربانی ہوگی۔ اللہ پاک آپ کا حامی و ناصر ہو۔ آمین
(المستفتی : مولوی نفیس، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : فجر کی نماز کا وقت صبح صادق سے طلوع آفتاب تک رہتا ہے۔ فجر کی نماز اِسفار کرکے یعنی کچھ اجالے میں پڑھنا مستحب ہے، جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ فجر کی نماز اجالے میں پڑھو کیونکہ اجالے میں نماز پڑھنے میں اجر زیادہ ہے۔ البتہ اتنی تاخیر نہ ہو کہ نماز فاسد ہونے کی صورت میں مسنون طریقے پر نماز دوہرانے کی گنجائش نہ رہے۔ لہٰذا طلوع آفتاب سے کم ازکم ٢٥/ ٣٠ منٹ پہلے فجر کی جماعت کا وقت ہونا چاہیے۔
رمضان المبارک میں چونکہ لوگ سحری کے لیے جلد نیند سے بیدار ہوجاتے ہیں، اس لیے جماعت کا وقت پہلے رکھ دیا جاتا ہے تاکہ سب لوگ سحری سے فارغ ہوکر جماعت میں شامل ہوجائیں اور جماعت بڑی ہو، تاخیر کی صورت میں اس بات کا اندیشہ ہے کہ لوگ سوجائیں گے اور جماعت سے محروم رہ جائیں۔
دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
فجر کی نماز رمضان میں اول وقت میں اس لیے پڑھی جاتی ہے کہ لوگ سحری کے لیے اٹھتے ہیں، پھر سحری کھاکر سوجائیں تو فجر کی نماز قضا ہوجائے گی، اس لیے اول وقت میں پڑھ لیتے ہیں کہ نماز کے بعد پھر اطمینان سے اپنی نیند پوری کرسکتے ہیں۔ (رقم الفتوی : 41427)
امید ہے کہ درج بالا تفصیلات کی روشنی میں آپ اس عمل کی حکمت ومصلحت سے واقف ہوگئے ہوں گے۔ نیز آپ کو اس بات کا بھی علم ہونا چاہیے کہ فجر کی نماز اول وقت میں پڑھنا اور کچھ تاخیر سے پڑھنا صرف افضل اور غیر افضل کا مسئلہ ہے، جائز اور ناجائز کا مسئلہ نہیں ہے۔ لہٰذا رمضان المبارک میں مصلیان کی رعایت میں جلد نماز فجر ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : أَسْفِرُوا بِالْفَجْرِ فَإِنَّهُ أَعْظَمُ لِلْأَجْرِ۔ (سنن الترمذی، رقم : ١٥٤)
أول وقت الفجر إذا طلع الفجر الثانی وہو المعترض فی الأفق وآخر وقتہا ما لم تطلع الشمس ۔ (ہدایۃ : ۱؍۸۰)
عَنْ أَنَسٍ أَنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ حَدَّثَهُ أَنَّهُمْ تَسَحَّرُوا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَامُوا إِلَى الصَّلَاةِ، قُلْتُ : كَمْ بَيْنَهُمَا ؟ قَالَ : قَدْرُ خَمْسِينَ أَوْ سِتِّينَ، يَعْنِي آيَةً۔ (صحیح البخاری، رقم : ٥٧٥)
فلو اجتمع الناس اليوم أيضاً في التغليس لقلنا به أيضاً، كما في «مبسوط السرخسي» في باب التيمم: أنه يستحب التغليس في الفجر، والتعجيل في الظهر إذا اجتمع الناس۔ (فيض الباري على صحيح البخاري : ٢/١٧٧)
قوله : (كنت أتسحر في أهلي، ثم يكون سرعة بي أن أدرك صلاة الفجر مع رسول الله صلى الله عليه وسلم) ولعل هذا التغليس كان في رمضان خاصةً، وهكذا ينبغي عندنا إذا اجتمع الناس، وعليه العمل في دار العلوم بديوبند من عهد الأكابر۔ (فيض الباري على صحيح البخاري : ٢/١٧٨)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
15 رمضان المبارک 1443
جزاک اللہ خیرا و احسن الجزاء مفتی صاحب
جواب دیںحذف کریںJazakallah khair
جواب دیںحذف کریںعیدین کی نماز مساجد میں ادا کرنے کا حکم
جواب دیںحذف کریںمکمل اور مدلل جواب دینےکابہت بہت شکریہ مفتی صاحب
جواب دیںحذف کریںMera sawal hai ki fajar ke bad mein jo makro waqt hone ke bad khatm hone ke bad yah to aapko israr ki namaj padhte Hain iski fajilat bataen koi Hadis ka khulasa bataya
جواب دیںحذف کریںالسلام علیکم محترم
جواب دیںحذف کریںبلا شرعی عذر رمضان کے روزے چھوڑنے والے نوجوانوں کے بارے عید منانے کا کیا حکم ہے؟
جیسا کہ دیکھا گیا ہے کہ شہر مالیگاوں میں نوجوانوں کی کثیر تعداد روزہ خوری میں ملوث ہے تو ایسے نوجوانوں کی عید منانے اور نئے کپڑے پہنے و عیدالفطر کا دوگانہ پڑھنے کے بارے میں کیا حکم ہے رہنمائی فرمائیں