✍ محمد عامر عثمانی ملی
قارئین کرام ! شہرِعزیز مالیگاؤں اپنی گوناگوں خوبیوں کی وجہ سے ہندوستان بھر میں مشہور و معروف ہے، جن میں سے ایک خاص وصف یہاں کے مخیران قوم اور عوام الناس کا انفاق فی سبیل اللہ کا جذبہ ہے۔ اہلیانِ شہر دین کے ہر شعبے میں اپنا مال لگانا دارین کی سعادت سمجھتے ہیں، خواہ وہ تبلیغی جماعت اور اس کے اجتماعات ہوں، مساجد و مدارس کی تعمیر اور ان کے اخراجات کی تکمیل میں تعاون ہو، یا غرباء و مساکین کی امداد۔ غرض یہ کہ ہر مد میں خرچ کیا جاتا ہے۔ بلامبالغہ شہر میں ملک بھر کی مساجد و مدارس کے ذمہ داران و سفراء صدقات، عطیات و زکوٰۃ کی مد میں لاکھوں بلکہ کروڑوں روپے وصول کرلیتے ہیں۔ فالحمدللہ علی ذالک۔ اللہ تعالٰی اسے قبول فرمائے اور اس میں زیادتی کی توفیق عطا فرمائے ۔
محترم قارئین ! جیسا کہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہر خیر کے ساتھ شربھی لگا ہوتا ہے، جو اسے نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا رہتا ہے، چنانچہ معزز شہریان کے انفاق فی سبیل اللہ کے جذبے کے ساتھ بھی ایک شر لگ گیا ہے۔ اور وہ ہے بھیڑ کے لباس میں بھیڑئیے اور چندہ خور گھس پیٹھئے سفراء۔ ایسا لکھتے ہوئے ہمارا کلیجہ منہ کو آرہا ہے، لیکن مجبوراً اپنی معلومات اور اندیشوں کو آپ کے سامنے پیش کیا جارہا ہے۔
رنگین جانوروں کی کھال کا کیا مسئلہ ہوا اسے بہانہ بناکر سال بھر سفراء کی آمد کا سلسلہ دراز تر ہوتا چلا جارہا ہے۔ جن میں صرف مدارس ہی نہیں مساجد کی تعمیر کا چندہ کرنے والوں کی بھی ایک بڑی تعداد ہوگئی ہے جو آج سے پانچ سال پہلے بالکل نہ کے برابر تھے۔ فی الحال شہر میں تقریباً تین ہزار سفراء موجود ہیں، ایک مسجد کی ہر نماز میں دس بارہ سفراء موجود ہوتے ہیں، اتنے سفراء کہاں سے آرہے ہیں؟ اور یہ صرف مالیگاؤں کا حال ہے تو دیگر علاقوں کا کیا حال ہوگا؟ کیا واقعی ہندوستان میں اتنے مدارس ہیں؟ اور مدارس ہیں بھی تو کیا ہر مدرسہ کو اتنی ضرورت ہے؟ سفراء کی بڑھتی ہوئی تعداد کہیں کمیشن کی حد سے زیادہ بڑھتی ہوئی مقدار تو نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے مدارس کی ضرورت پوری نہیں ہو پارہی ہے اور نتیجتاً ایک کے بجائے تین چار سفراء کو نکلنا پڑرہا ہو؟ اور انجام کے اعتبار سے عام مسلمانوں کے چندے غیرمصرف میں خرچ ہورہے ہیں؟
ایک مدرسہ کا بالکل سچا واقعہ آپ کے سامنے پیش کروں گا کہ سفیر صاحب پچاس فیصد کمیشن پر چندہ کررہے تھے، دیڑھ لاکھ سے زائد انہوں نے چندہ کیا تھا، لیکن اس کے باوجود مدرسہ میں انہوں نے صرف 28000 جمع کرائے ہیں۔ بقیہ پیسے اب وہ اپنی سہولت سے دینے کے لیے کہہ رہے ہیں۔ معلوم ہونا چاہیے کہ اس مدرسہ میں جتنا تدریسی اسٹاف ہے اتنے ہی سفراء بھی ہیں۔
بعض سفراء نے اب ایک نیا طریقہ سیکھ لیا ہے وہ یہ کہ اعلان کیا جاتا ہے کہ مدرسہ میں قرآن شریف کی ضرورت ہے جس کا ہدیہ ڈھائی سو روپے ہے۔ کیونکہ انہیں اس بات کا اندازہ ہوگیا ہے کہ عوام قرآن شریف وقف کرنے میں بہت دلچسپی دکھاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہر مسجد میں ضرورت سے زائد قرآن مجید ہوتا ہے جو برسوں سے غیرمستعمل ہوتا ہے۔ اب اگر قرآن مجید کی ضرورت کا اعلان اگر اسی علاقے میں کیا جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ اسی علاقے کی مساجد کے غیرمستعمل قرآن سے ہی یہ ضرورت پوری ہوجائے گی۔ اور اگر اس سے نہ بھی پوری ہوئی تو اسی علاقے کی عوام اس ضرورت کو بدرجہ اولی پوری کردیں گے۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ دوسری ریاست میں جاکر قرآن شریف کا تقاضہ کیا جائے؟ دوسری ریاستوں میں جاکر یہ تقاضہ کرنا ہماری سمجھ کے باہر ہے۔
مساجد کا چندہ کرنے والے سفراء یہ اعلان کرتے ہیں کہ غریب اور پسماندہ علاقے کی مسجد ہے۔ لیکن اس کا بجٹ ستر اسی لاکھ اور اس سے زائد تک بتاتے ہیں، اب جبکہ یہ علاقہ پسماندہ ہے تو کیا ضرورت ہے کہ پورے ملک سے چندہ کرکے بہت عالیشان عمارت تعمیر کرنے کی؟ علاقے کی نوعیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے کم سے کم بجٹ میں سادہ عمارت تعمیر کرلینا ہی شریعت کا مزاج ہے۔
ہماری اپنی معلومات کے مطابق بعض سفراء ساٹھ فیصد تک کمیشن لے رہے ہیں، اور ظاہر سی بات ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں کمیشن کوئی معروف یا معتبر دینی ادارہ والے بالکل نہیں دیں گے، یہ غیر معروف، غیرضروری اور غیر معیاری اداروں کا کام ہے۔ اسی میں کسی حد تک شفافیت لانے کے لیے جمیعت علماء کی جانب سے تصدیق نامہ کا سلسلہ جاری کیا گیا ہے جو شرعاً بھی مستحسن عمل ہے اس کی وجہ سے بہت حد تک بدعنوان سفراء سے حفاظت ہوسکتی ہے۔ لیکن جن لوگوں کا مشن سفارش نامہ اور دھمکی نامہ فلاپ ہوچکا ہے اب وہ جمیعت علماء کے ساتھ ساتھ شہر کی مساجد کے فکرمند ائمہ، مؤذنین اور محتاط زکوٰۃ دہندگان کو گناہ کبیرہ کا مرتکب ٹھہرا رہے ہیں۔ جبکہ وہ خود کوئلے کی دلالی اپنا ہاتھ کالا کررہے ہیں۔ چندہ دہندگان کو ان سے یہ مسئلہ ضرور پوچھنا چاہیے کہ کمیشن پر چندہ کرنا اور ایسے سفراء کو چندہ دینا کیسا ہے؟ اور ان سے یہ بھی سوال کرنا چاہیے کہ جعلی اور حد سے زیادہ کمیشن بٹورنے والے سفراء کے دور میں بغیر تحقیق کے سفارش نامہ ریوڑھی کے جیسے بانٹنا یہ محتاط عمل ہے یا تحقیق کرکے اپنی زکوٰۃ و صدقات کو صحیح مصرف میں لگانا محتاط اور شرعاً مستحب عمل ہے؟ اگر کسی بھی طرح کی تحقیق کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہوتی تو پھر شریعت میں زکوٰۃ اور صدقات واجبہ کے مصارف کیوں بیان کیے گئے ہیں؟ اگر کسی کو بھی اٹھاکر کچھ بھی دے دینا جائز ہوتا تو فقہاء نے یہ مسئلہ کیوں بیان کیا ہے کہ تندرست پیشہ ور فقیر کو خیرات دینا جائز نہیں ہے؟ آپ کون سی شریعت بتا رہے ہیں اور کس بات کا مجرم سارے شہر کو ٹھہرا رہے ہیں؟
ہمارا اس موضوع پر اس طرح کا سخت مضمون لکھنے کا بالکل ارادہ نہیں تھا، لیکن مسلسل تین چار سالوں سے سفراء کو لے کر ائمہ، مؤذنین اور فکرمند عوام کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اور شفافیت چاہنے والوں کو مجرم گردانا جارہا ہے جس کی وجہ سے یہ ضروری ہوگیا تھا کہ دوسرا پہلو بھی عوام کے سامنے لایا جائے۔ ہم اخیر میں یہی کہیں گے کہ ہر سفیر کو شک کی نظر سے نہ دیکھا جائے۔ بلکہ اکرام سب کا ہوگا لیکن درج ذیل گذارشات پر ائمہ اور شہریان عمل کرلیں تو بڑی امید ہے کہ امت کا مال صحیح مصرف میں خرچ ہو۔
1) افضل یہی ہے کہ پہلے اپنے شہر اور اطراف کے معلوم مدارس ومساجد کا تعاون کریں۔
2) سب سے بہتر شکل یہ ہے کہ چندے کی بڑی رقموں کو براہ راست مدرسے یا مسجد کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کریں۔
3) اگر آپ براہ راست تحقیق نہیں کرسکتے تو بہتر اور محفوظ طریقہ یہی ہے کہ سفراء کے پاس جمعیت علماء مالیگاؤں کا تازہ تصدیق نامہ دیکھ کر چندہ دیں، اس لیے کہ یہ ملک گیرتنظیم ہے، پورے ملک کے کارکن ایک دوسرے سے رابطے میں رہتے ہیں، بہت آسانی سے صحیح اور غلط کی تصدیق بھی ہوجاتی ہے۔ ہاں اگر آپ سفیر کو پہلے سے ہی جانتے ہیں یا آپ ذاتی طور پر ادارہ اور اس کی کارکردگی سے واقف اور مطمئن ہیں تو پھر آپ کے لیے کسی کا تصدیق نامہ دیکھنا ضروری نہیں۔
4) اگر آپ امام ہیں، یا مسجد کے ذمہ دار/ٹرسٹی ہیں تو بذات خود تحقیق کرکے اعلان کی اجازت دیں، بغیر اجازت چندہ نہ کرنے دیں۔
5) ہر نماز میں سلام کے بعد لمبا چوڑا اعلان کرنے میں قباحتیں ہیں اس لیے ہر ہر سفیر کو اجازت دینا ضروری نہیں ہے، نیز ہر نماز کے بعد بھی اعلان نہ کرنے دیں کبھی کبھار مناسب سمجھیں تو اعلان کی اجازت دیں ورنہ تصدیق نامہ موجود ہونے کی صورت میں صرف چندے کی اجازت دیں، ائمہ کرام یہ ماحول بنانے کی کوشش کریں مصلیان بغیر اعلان کے چندہ دینے کا مزاج بنا لیں۔
اللہ تعالٰی ہم سب کو مستحق اداروں کے ایماندار سفراء مہیا فرمائے اور اپنے زکوٰۃ اور صدقات کو صحیح مصرف خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین
درست فرمایا آپ نے.
جواب دیںحذف کریںجزاکم اللہ خیرا و احسن الجزاء
جزاک اللہ
جواب دیںحذف کریںMasha Allaha mufti sahab Allaha aap ki fikron ko kabol farmaye
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ خیرا و احسن الجزاء مفتی صاحب
جواب دیںحذف کریںماشاءاللہ بہت خوب مفتی صاحب
جواب دیںحذف کریںبہت بڑا کنفیوژن دور کردیے
ماشاء اللہ....
جواب دیںحذف کریںبہت خوب مفتی صاحب بر وقت اور بہترین تحریر
جواب دیںحذف کریںماشاء اللہ بر وقت مضمون نگاری
جواب دیںحذف کریںماشاء اللہ بہت خوب تحریر-
جواب دیںحذف کریںپوائنٹ ٹو پوائنٹ پکڑے ہیں 🌹
اِس معاملے میں جمیعت علماء مدنی روڈ بہت ہے فکر مند ہے لیکن سلیمانی چوک کی جمیعت کا باوا آدم ہی نرالا ہے
جواب دیںحذف کریںماشاء اللہ بہت خوب مفتی صاحب
جواب دیںحذف کریںایک رائے یہ ہے کہ اب اپنے شہر کے اُلّو صفت انتہائی احمق لوگوں کی اصلاح کے لئے بھی کوئی مناسب مضمون لکھیں.
اس ضمن میں کہ کیا کہیں بھی کوئی بھی مسجد یا مدرسہ بنا دے گا(وہ جھوٹا بھی ہو سکتا ہے) تو اس کے اخراجات کا ٹھیکہ تم بے وقوف مالیگاؤں والے ہی لوگے؟؟؟
تَوصِیف اِشتِیاق
ماشاء اللہ بہت خوب لکھا آپ نے اللہ تعالیٰ آپ سے دین کا بہترین کام لے
جواب دیںحذف کریںماشاءاللہ بہت عمدہ باتیں آپ نے کہی ہے
جواب دیںحذف کریںمیری رائے ہے کہ جمیعت کے ذمہ داران ایک مرتبہ تمام سفراء حضرات کی مکمل معلومات لے کر اپنی بک میں درج کریں اور رمضان کے اختتام کے بعد دوچار حضرات کو روانہ کریں کہ بھئی آپ لوگ انکے مدرسوں میں جاکر وزٹ کریں اور مکمل طور پر جائزہ لے کر اسکی رپورٹ تیار کرکے آئیں اس سے یہ ہوگا کہ جو سفراء ایسے مدرسوں ( مکتب) کا چندہ کرنے آتے ہیں جہاں زکوۃ کا کوئی مصرف نہیں ہے ان لوگوں کا آنا بند ہو جائے گا
یا یہ کرنا چاہیے کہ جس مدرسے میں سو دوسو طلبہ کھانے والے ہوں جمیعت ان ہی کو تصدیق دے باقی کو سیدھا روانہ کردیں
تجویز پسند آئی
حذف کریںماشإ اللہ جزاک اللہ اللہم زد فزد بہت عمدہ تحریر ہے
جواب دیںحذف کریںبات تو بہرحال سچی اور دم دار حضرت،
جواب دیںحذف کریںمگر اس کا کوئی مستقل حل ہونا چاہیے،
بہت خوب مفتی صاحب اللہ تعالی آپ کے علم میں خوب برکت مقدر فرمائے ایک چیز دیکھنے میں یہ بھی آئی کہ ایک مدرسے کے دو سفیر ہمارے اپنے شہر میں موجود اور جمیعت دونوں کو تصدیق دیتی ہے اب کیا کریں اور اگر شہر کے ائمہ حضرات صرف جمیعت کی ہی تصدیق قبول کرلیں تو بہتر ہو کسی بھی شہر کے معبتر شخص کی بھی سفارش قبول نہ کریں بلکہ وہ شفارس کرنے والے شخص بذات خود جمیعت پہنچ کر شفارس کریں اپنے لیٹر کو ذائے نہ کریں
جواب دیںحذف کریںاس قوم کا اثاثہ اسی طرح ختم ہو رھا ھے آج واقعی میں مساجد میں اتنے سفراء آتے ہیں کی مصلی اب اپنی مسجد میں بھی چندہ دینے سے رہا اور سفراء کی اتنی زیادہ تعداد اور چندہ وصول کرنے کا طریقہ اللہ ہی خیر کریں، اس طریقہ کار سے ان لوگوں کا حق بھی تلف ھو رھا ھے جو بچارے اپنی حق تلف کا کسی کو کہے بھی نہیں سکتے ،اللہ نے حلال رزق کے لیے تین زرائع بتائیں ھے، پہلا زراعت ،دوسرا دھندہ کاروبار اورتیسرا محنت مزدوری، کیا یہ چندہ مانگ کر اپنجاپنی اور اپنے ادارے کی کفالت کرنا اس زمرے میں آتا ہے جو اللہ نے بتایا ھے
جواب دیںحذف کریںماشاء اللہ
جواب دیںحذف کریںماشاءاللہ
جواب دیںحذف کریںبہت خوب مفتی صاحب آپ نے واقعی حق بات کہہ دی، کیونکہ فی الوقت شہر میں کئی ہزار سفرا موجود ہیں اور ابھی سفرا کے آنے کا سلسلہ بھی دراز ہے، جن میں نئے سفرا کی بھرمار ہے، اب یہ نئے سفرا بنا جمعیت سے کوئی رابطہ کئے آتے ہی جا رہے ہیں، اور یقیناً ان مدارس میں پہنچ کر یا وہاں کی مقامی جمیعت ہو تو اس سے تحقیقات کرنا وقت کی ضرورت بن گیا ہے، اور بہت سارے سفرا ایسے بھی ہیں جو لیٹر ہیڈ کی میعاد مکمل ہونے کے بھی کئی دنوں بعد تک چندہ کررہے ہیں جس سے دوسرے سفرا کا نقصان ہورہا ہے، اس کا بھی کوئی مستقل حل ہو توبہت بہتر ہو،
جواب دیںحذف کریںویسے آپ کی اس تحریر سے واقعی بہت ساری باتیں سامنے آگئی
جزاکم اللہ خیرا. اللھم زد فزد.
بہت خوب مفتی صاحب جزاک اللہ
جواب دیںحذف کریںمیری ادنی راے ہے
کہ رمضان کے بعد شھر کے تمام ائمہ اور دونوں جمیعت کے ذمہ داران اپس میں مشورہ کرکے کوئ مناسب حل تلاش کریں . جو لوگ بغیر تصدیق کے اجازت کی بات کررہے انکے بارے میں کوئ متفقہ فیصلہ ہونا چاہئے
اور تصدیق جاری کرنے والے احباب سے بھی کہیں نہ کہیں چوک ہو رہی ہے تب ہی تو کمیشن والے اور غیر مستحق اداروں کے سفراء کی بھی بڑی تعداد شہر میں موجود
بندہ سے اس بات کی نشاندہی خود کئی معتبر سفراء کی ہے
بھت اچھا فکر مند تحریر
جواب دیںحذف کریںماشاء اللہ بہترین باتیں بتائیں آپ نے
جواب دیںحذف کریںالسلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ مفتی صاحب پہلے آپ یہ بتائیں یہ مضمون لکھا کس نے ہے آپ نے یا پھر مفتی عامر یاسین ملی نے یہ مضمون تو شامنامہ میں مفتی عامر یاسین ملی نے اپنے نام سے شائع کیا ہے
جواب دیںحذف کریںالسلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ مفتی صاحب پہلے آپ یہ بتائیں کہ آپ نے یہ مضمون لکھا ہے یا پھر مفتی عامر یاسین ملی نے اس مضمون کو مفتی عامر یاسین ملی نے شامنامہ میں اپنے نام سے شائع کیا ہے
جواب دیںحذف کریںوعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
حذف کریںوہ آپریٹر کی غلطی سے مفتی عامر یسین ملی صاحب کے نام سے شائع ہوا ہے۔ دوسرے دن اس کی وضاحت اخبار میں آچکی ہے۔
دارالعلوم وقف کی ایک کتاب میری نظر سے گزری ہے شاید سال میں ایک مرتبہ مدرسے سے چھپتی ہے اس میں مدرسے کے تمام معلمین اور سفراء کے نام درج ہوتے ہیں یہ نظام اگر تمام مدارس میں جاری ہوجاے تو بہتر ہے اس سے بآسانی تحقیق ہوجائیگی(مجیب الرحمن ناندیڑ مہاراشٹر)
جواب دیںحذف کریں