سوال :
مفتی صاحب میرا ایک دوست غیر مسلم ہے جو چاہتا ہے کہ مسجد میں آ کر نماز پڑھے۔
۱) اسکو مسجد میں لا سکتے ہیں؟
۲) اگر ہاں تو کچھ شرائط ہے کیا اسکی؟
(المستفتی : ریان احمد، دھولیہ)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : غیرمسلم کے مسجد میں داخل ہونے کی شرط یہی ہے کہ اس کے بدن یا کپڑوں پر ظاہری طور پر کوئی نجاست نہ لگی ہو۔ لہٰذا جب وہ بظاہر پاک ہوتو اسے مسجد میں لانا جائز اور درست ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور خلفائے راشدین کے زمانہ میں غیرمسلم مسجد نبوی میں داخل ہوتے تھے۔
صورتِ مسئولہ میں اگر آپ کے غیرمسلم دوست کے کپڑوں یا بدن پر بظاہر کوئی ناپاکی نہ لگی ہوتو آپ اسے مسجد لاسکتے ہیں اور وہ صف میں کھڑے ہوکر نماز کے ارکان ادا کرسکتا ہے اس کی وجہ سے دوسروں کی نماز بھی خراب نہیں ہوگی۔ البتہ ملکی حالات کا بھی خیال رہے کہ اس کی وجہ سے کوئی فتنہ کا اندیشہ نہ ہو۔
حَدَّثَنا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعاذٍ، حَدَّثَنا أبِي، حَدَّثَنا أشْعَثُ، عَنِ الحَسَنِ، أنَّ وفْدَ ثَقِيفٍ أتَوْا رَسُولَ اللَّهِ ﷺ، فَضُرِبَتْ لَهُمْ قُبَّةٌ فِي مُؤَخَّرِ المَسْجِدِ لِيَنْظُرُوا إلى صَلاةِ المُسْلِمِينَ، وإلى رُكُوعِهِمْ وسُجُودِهِمْ، فَقِيلَ: يا رَسُولَ اللَّهِ أتُنْزِلُهُمُ المَسْجِدَ وهُمْ مُشْرِكُونَ؟ فَقالَ: «إنَّ الأرْضَ لا تَنْجُسُ، إنَّما يَنْجُسُ ابْنُ آدَمَ»۔ (المراسیل لأبي داؤد، رقم : ١٧)
حَدَّثَنا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ المُرادِيُّ، حَدَّثَنا ابْنُ وهْبٍ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ ابْنِ شِهابٍ، أخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ المُسَيِّبِ «أنَّ أبا سُفْيانَ، كانَ يَدْخُلُ المَسْجِدَ بِالمَدِينَةِ وهُوَ كافِرٌ۔ (المراسیل لأبي داؤد، رقم : ١٨)
(قَوْلُهُ وَجَازَ دُخُولُ الذِّمِّيِّ مَسْجِدًا) وَلَوْ جُنُبًا كَمَا فِي الْأَشْبَاهِ۔ (شامی : ٦/٣٨٧)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
05 شعبان المعظم 1443
ماشاء اللہ
جواب دیںحذف کریںجزاکم اللہ خیرا کثیراً کثیرا