پیر، 7 مارچ، 2022

میاں بیوی ایک لمبے عرصے تک الگ رہیں تو؟

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ ایک آدمی اپنی بیوی کے پاس تقریباً بارہ سال کا عرصہ گزر گیا ہے کہ نہ آتا ہے نہ بات کرتا ہے نہ خرچہ وغیرہ دیتا ہے۔ یعنی ۱۲سال سے علیحدہ رہ رہا ہے۔ کیا اسطرح الگ رہنے سے طلاق ہو جائے گی یا نہیں؟ شریعت اس مسئلہ کے بارے میں کیا کہتی ہے؟ اور وہ ابھی زندہ ہے مگر وہ مرد اس عورت کے سامنے سے گزرتا ہے تو وہ عورت اس سے پردہ کر لیتی ہے برائے مہربانی وضاحت سے بیان فرما دیں تو عین نوازش ہو گی۔
(المستفتی : محمد مصروف، ٹڈولی، ضلع سہارنپور)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : میاں بیوی خواہ کتنے ہی عرصے بلکہ زندگی بھر ایک دوسرے سے علیحدہ رہیں تب بھی ان کا نکاح آپس میں باقی رہتا ہے۔ یہ بڑی عوامی غلط فہمی ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ میاں بیوی اگر زیادہ دن تک ایک دوسرے سے دور رہیں تو ان کا نکاح ٹوٹ جاتا ہے۔ یہ بالکل بے بنیاد بات ہے۔ جب تک شوہر اپنی بیوی کو طلاق نہیں دے گا نکاح باقی رہے گا۔ ہاں اگر شوہر خود سے بیوی کے پاس نہیں جاتا اس کے حقوق ادا نہیں کرتا تو وہ گناہ گار ہوگا۔ اور اگر بیوی شوہر کی اجازت کے بغیر میکہ وغیرہ میں رہتی ہے، شوہر کے پاس نہیں آتی اس کے حقوق ادا نہیں کرتی تو وہ گناہ گار ہوگی۔ لیکن ان کا نکاح بدستور باقی رہے گا وہ جب چاہیں ساتھ میں رہ سکتے ہیں۔

صورتِ مسئولہ میں شوہر اگر خود سے اپنی بیوی کے پاس نہیں آتا، اس کے حقوق ادا نہیں کرتا تو وہ گناہ گار ہوگا۔ لیکن ان نکاح قائم ہے۔ لہٰذا اس کی بیوی کا اس سے پردہ کرنا درست نہیں ہے۔

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم في حدیث طویل، وطرفہ ہذا : ’’ولہن علیکم رزقہن وکسوتہن بالمعروف‘‘ (صحیح مسلم، رقم : ۱۲۱۸)

وَإِنْ نَشَزَتْ فَلَا نَفَقَةَ لَهَا حَتَّى تَعُودَ إلَى مَنْزِلِهِ وَالنَّاشِزَةُ هِيَ الْخَارِجَةُ عَنْ مَنْزِلِ زَوْجِهَا الْمَانِعَةُ نَفْسَهَا مِنْهُ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/٥٤٥)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
04 شعبان المعظم 1443

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

بوگس ووٹ دینے کا حکم