قارئین کرام ! شہر عزیز مالیگاؤں میں ایک بینک کے الیکشن کو لے کر ماحول گرم ہے۔ سیاسی افراد کے ساتھ ساتھ عوام اور بظاہر دیندار نظر آنے والے افراد بھی اس کے الیکشن میں حصہ لینے، ووٹ دینے، دلانے اور امیدواروں کی حمایت میں بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانے بنے ہوئے نظر آرہے ہیں۔
اس سلسلے میں ہمارے پاس کئی سوالات آئے ہوئے تھے جس کا ہم نے پہلے مختصر جواب لکھ کر چھوڑ دیا تھا، لیکن دن بدن عوام الناس کی اس الیکشن میں بڑھتی ہوئی دلچسپی اور سود جیسے سنگین گناہ کو ہلکا سمجھا جارہا تھا جس کے پیشِ نظر اس کا مدلل جواب لکھنا پڑا تاکہ اس کی شرعی حیثیت واضح ہوجائے اور ماننے والوں کو راہ عمل مل جائے۔ اس جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ سودی نظام والے بینک کے الیکشن میں حصہ لینا ووٹ دینا اور کسی امیدوار کی حمایت کرنا سب ناجائز اور گناہ ہے۔ اس لیے کہ یہ سودی نظام کو تقویت پہنچانا ہے۔ اس سلسلے میں ایک اور فتوی بھی حاصل کیا گیا ہے جس میں یہ سوال کیا گیا تھا کہ ہمارے پینل کا یہ عزم ہے کہ ہم اس بینک کو سود سے پاک نظام کے تحت چلائیں گے۔ جس کی بنیاد پر مفتی صاحب نے بھی جواب عنایت فرمایا کہ اگر واقعتاً ایسا ہی ہے تو پھر اس عزم کے ساتھ بینک کے الیکشن میں حصہ لینا، ووٹ مانگنا اور ووٹ دینا سب جائز ہے، جو سوال کے مطابق اور بالکل درست ہے۔ لیکن اگر اس دعوی کا جائزہ لیا جائے اور ماہرین سے اس سلسلے میں معلومات لی جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ ریزو بینک آف انڈیا ایسے کسی بینک کو اجازت ہی نہیں دیتی ہے جس میں سود سے پاک نظام ہو۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ غالباً عوام اور شیئر ہولڈرس کو دھوکہ دینے کے لیے یہ فتوی حاصل کیا گیا ہے۔ لہٰذا اب بھی حکم وہی ہے جو ہمارے جواب میں بیان کیا گیا ہے۔ یعنی شریعت مطہرہ کا واضح اور مسلّم اصول یہی ہے کہ ایسے بینک جس میں سودی نظام قائم ہو اس کا شیئر خریدنا اور اس میں حصہ داری لینا جائز ہی نہیں ہے۔ کیونکہ یہ سودی نظام کو تقویت پہنچانا ہے۔ لہٰذا جب شیئر خریدنا جائز ہی نہیں ہے تو پھر اس کے عہدوں کے لیے ہونے والے الیکشن میں امیدواری کرنا اور ان امیدواروں کو ووٹ دینا سب ناجائز اور گناہ ہے۔
عوام الناس کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ بینک کے الیکشن سے آپ کا کچھ فائدہ ہونے والا نہیں ہے، اس میں صرف چند لوگوں کا فائدہ ہے، جبکہ بینک اور اس کے الیکشن کو ایسا مفید بتایا جارہا ہے جیسے اسی سود کی کمائی سے مالیگاؤں کے سارے مسائل حل ہوجائیں گے۔ ہمیں بتائیں کہ سود کا ناجائز اور حرام پیسہ مسلمانوں کی فلاح اور ترقی کا ضامن کیسے ہوسکتا ہے؟ اگر آپ واقعی شہریان کے حق میں خیر خواہ ہیں اور آپ غیر سودی نظام کے تحت کچھ کام کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو شروع سے ایک الگ سسٹم کے تحت کام کرنا پڑے گا۔ پہلے سے بنے ہوئے سودی نظام میں داخل ہوکر اسے سود سے پاک کرنے کی بات کرنا خام خیالی اور ایک ناممکن سا عمل ہے۔ اگر آپ اس سلسلے میں سنجیدہ ہیں تو ہم آپ کو ایسے مخلص قانونی اور شرعی ماہرین کی طرف رہنمائی کریں گے جو آپ کی ان شاءاللہ اس سلسلے میں مکمل رہنمائی کریں گے۔
ہمیں اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ ہمارے جواب اور اس مضمون سے بہت سوں کے چہرے اتر جائیں گے اور بعض تو ہمارے دشمن تک بن جائیں گے، لیکن بات شریعت اور اسکے واضح اصولوں کی ہے۔ لہٰذا اس سلسلے میں کسی بھی قسم بے جا تاویل اور مداہنت ہم سے نہیں ہوسکے گی خواہ کچھ بھی ہو جائے۔
اللہ تعالٰی ہم سب کی سود جیسی لعنت میں پڑنے یا اس کے نظام کو تقویت پہنچانے جیسے اعمال سے حفاظت فرمائے۔ اور ہم سب شریعتِ مطہرہ کے ہر حکم کے آگے سر خم تسلیم کرنے کی خُو عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
آمین ثم آمین
جواب دیںحذف کریںماشاء اللہ
ہمت مرداں مدد خدا ۔اللہ تعالٰی آپ کے علم و عمل و تقوٰی میں برکت عطا فرمائے ۔آمین یا رب العالمین
جواب دیںحذف کریںآپ کی تفصیلی باتوں سے اب سچ میں دل مطمئن ہو گیا ہے۔ کہ کسی بھی صورت میں سود سے بچنے کا حکم کیوں دیا گیا ہے ۔ میں نے اپنے چچا کو دیکھا ہے۔ تقریباً عمر کے 50 سے 53 سال پورے کررہے ہیں۔ پیشے سے ڈاکٹر ہیں ۔ لیکن آج تک دنیا کی کسی بھی بینک کی پاںٔتری نہیں چڑھی ہے۔ میں بھی آج سے یہ عہد کرتا ہوں خواہ کچھ بھی ہو ۔ میں چچا کے طریقے پر عمل کرتے ہوئے ۔ سود و سودی نظام سے سختی سے پرہیز کروں گا۔۔۔
جواب دیںحذف کریںماشاء اللہ
حذف کریںبالکل درست فرمایا آپ نے.
جواب دیںحذف کریںجزاکم اللہ خیرا و احسن الجزاء
ڈاکٹر مختار احمد انصاری
جواب دیںحذف کریںبالکل درست فرمایا آپ نے.
جزاکم اللہ خیرا و احسن الجزاء
ماشاء اللہ جرأت و استقلال 🌹
جواب دیںحذف کریںاللہ کرے زورِ علم خوب زیادہ
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے اللہ اپ کے علم میں اضافہ فرمائے اور آپ کو اسی طرح بیباکی سے رہنمائی کرنے پر استقامت عطا فرمائے۔ ۔امین
جواب دیںحذف کریںYah SE ulmae haqq aur ulmae soo Ka farq samjh me aarahi hai ke kuch maulana log baqaedasavotekiappealKarrahe Hain
جواب دیںحذف کریںJazak Akllaha
جواب دیںحذف کریںماشاء اللہ آج بھی ہمارے معاشرے میں سچ کہنے اور لکھنے والے ایماندار علماء ہے ماشاءاللہ ماشاءاللہ
جواب دیںحذف کریںاللہ تعالیٰ آپکی عمر میں برکت عطا فرمائے.
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ محترم
اللہ تعالیٰ آپ کی عمر میں برکت عطا فرمائے، جزاک اللہ خیرا
جواب دیںحذف کریںالسلام علیکم ورحمتہ برکاتہ
جواب دیںحذف کریںمفتی صاحب میں اللہ تعالی سے آپ کے لیے دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی آپ اسی طرح حق بیانی پر تا عمر قائم و دائم رکھے
آج شہر میں دینی معاملات کے انبار لگے ہوئے ہے لوگ کسی نہ کسی طرح چھوٹے چھوٹے معاملوں گناہوں میں ملوث ہوتے جارہے ہیں
عوام کو چاہیئے کہ ہر معاملات میں علماء اکرام سے رجوع کریں تاکہ انہیں تمام مسائل کے حل قرآن و حدیث کی روشنی میں ملتے رہے
ماشااللہ مفتی صاحب اللہ آپ کو جزاۓ خیر دارین میں عطا فرماٸے ۔۔۔۔۔۔ آمین یارب العالمین
حذف کریںجذاک اللہ
جواب دیںحذف کریںMasaallah
جواب دیںحذف کریںاللہ پاک آپ کو اپنی حفظ و امان میں رکھے آمین
جواب دیںحذف کریںجزائے خیر عطا فرمائے آمین