سوال :
محترم مفتی صاحب ! ایک عورت حاملہ ہے اور ان گرمیوں کے دنوں میں ڈاکٹر نے اسے پانی زیادہ پینے کو کہا ہے۔ اسی طرح اگر کسی عورت کا دودھ پیتا بچہ ہو اور اسے کھائے پئے بغیر دودھ نہ آتا ہوتو کیا انہیں ان ایام میں رمضان المبارک کے روزے چھوڑنے کی گنجائش ہے یا نہیں؟ اور اگر ہے تو قضاء کئے ہوئے روزوں کی ادائیگی کی کیا ترتیب ہوگی؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : محمد اسلم، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اگر حاملہ عورت کو غالب گمان ہو کہ روزہ رکھنے کی صورت میں خود اس کی جان یا بچے کی صحت کو خطرہ ہوسکتا ہے یا ماہر ڈاکٹر نے کہا ہو کہ ان ایام میں اسے زیادہ پانی پینا پڑے گا یہاں تک کہ رمضان المبارک کے روزے بھی چھوڑنا پڑے گا اسی طرح دودھ پلانے والی عورت کو کھائے پئے بغیر دودھ نہ آتا ہو جس کی وجہ سے دودھ پینے والے بچہ کی غذا پوری نہ ہوسکے تو ان صورتوں میں حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت رمضان المبارک کا روزہ چھوڑ سکتی ہے، لیکن بعد میں جب یہ عذر ختم ہوجائے گا تو ان چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا کرنا ضروری ہوگا۔
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ : رَخَّصَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْحُبْلَى الَّتِي تَخَافُ عَلَى نَفْسِهَا أَنْ تُفْطِرَ، وَلِلْمُرْضِعِ الَّتِي تَخَافُ عَلَى وَلَدِهَا۔ (ابن ماجہ، رقم : ١٦٦٨)
(وَمِنْهَا حَبَلُ الْمَرْأَةِ، وَإِرْضَاعُهَا) الْحَامِلُ وَالْمُرْضِعُ إذَا خَافَتَا عَلَى أَنْفُسِهِمَا أَوْ، وَلَدِهِمَا أَفْطَرَتَا وَقَضَتَا، وَلَا كَفَّارَةَ عَلَيْهِمَا كَذَا فِي الْخُلَاصَةِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/٢٠٧)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
15 شعبان المعظم 1443
فظر فرض نمازکےبعداسی ذگے بیٹھ نےکےمکرو وقت ختم ہونےکےبعدچاررکات نماز پٹھے توایک حج عمرہ کاسواب ہے کیا وجاہت کر
جواب دیںحذف کریں