سوال :
مفتی صاحب ! سوال یہ ہیکہ ہمارے علاقے میں لڑکیوں کا ایک مدرسہ جاری ہے، وہاں پر حفظ کلاس بھی جاری ہے۔ الحمدللہ، لیکن جو ممتحن ہے وہ ایک قریب البلوغ لڑکا (14/13سال) اور امتحان بھی کسی شرعی پردے کے بغیر ہی ہوتا ہے اب وہاں کی لڑکیاں پردے کے لحاظ سے اس بات پر اعتراض کر رہی ہیں، لیکن صدر مدرسہ کہتی ہیں بچہ ابھی چھوٹا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہیکہ خود وہ ایک عالمہ ہے۔ اور یہ بھی واضح کر دیجیئے کہ یہ بچہ مدرسے میں بھی آسکتا ہے یا نہیں کیونکہ کھلے عام پورے مدرسے میں کلاسوں میں ایسے گھومتا ہے جیسے نگراں ہو۔ دوسرا مسئلہ یہ کہ یہ بچہ عورتوں کے دینی اجتماعات سے خطاب بھی کرتا ہے اسکا بھی خلاصہ کر دیجئے تاکہ علاقے کے لوگوں کو باخبر کیا جاسکے۔
(المستفتی : حافظ عبدالرحمن، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : بارہ سال کی عمر میں لڑکے بالغ ہوسکتے ہیں، اگر پندرہ سال کی عمر تک کوئی علامت مثلاً احتلام وغیرہ ظاہر نہ ہوتو پندرہ سال پر وہ شرعاً بالغ شمار ہوتا ہے۔ چنانچہ بارہ سال سے پندرہ سال کے درمیان کی عمر والے لڑکے اگر ان میں علامت ظاہر نہ ہوئی ہوتو وہ قریب البلوغ اور مراہق کہلاتے ہیں، ان کے لیے بھی احتیاط اسی میں ہے کہ بغیر پردہ کے عورتوں کے سامنے نہ جائیں۔
لہٰذا صورتِ مسئولہ میں تیرہ چودہ سال کے بچے کا بالغ بچیوں کا بغیر پردہ کے امتحان لینا اور مدرسہ میں کسی بھی وقت چکر لگانا احتیاط کے خلاف ہے۔ اور جبکہ بچیاں اس پر اعتراض بھی کررہی ہیں تو یہ کام فوراً بند کروا دینے میں عافیت ہے۔ اس کام کے لیے ہمارے یہاں باصلاحیت معلمات کی کمی نہیں ہے۔ لہٰذا یہ دونوں کام بھی معلمات سے ہی کروانا چاہیے۔
اسی طرح ایسے قریب البلوغ بچے کا جو صرف حافظ ہو خواتین کے مجمع میں بغیر پردہ کے خطاب کرنا درست نہیں ہے۔ اور اس بات کا اندیشہ بھی ہے کہ وہ شعور اور علم کی ناپختگی کی وجہ سے کوئی ایسی بات کہہ دے گا جو گمراہی کا سبب بن جائے۔ لہٰذا خواتین کے اجتماعات میں عالمات سے ہی خطاب کروایا جائے اور جہاں عالمات میسر نہ ہوں وہاں پردہ کی رعایت کے ساتھ علماء سے خطاب کروایا جائے۔
عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مُرُوا أَوْلَادَكُمْ بِالصَّلَاةِ وَهُمْ أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِينَ، وَاضْرِبُوهُمْ عَلَيْهَا وَهُمْ أَبْنَاءُ عَشْرٍ، وَفَرِّقُوا بَيْنَهُمْ فِي الْمَضَاجِعِ۔ (سنن أبي داؤد، رقم : ٤٩٥)
أمْرٌ مِنَ التَّفْرِيقِ (بَيْنَهُمْ) : أيْ : بَيْنَ البَنِينَ والبَناتِ عَلى ما هُوَ الظّاهِرُ، ويُؤَيِّدُهُ ما قالَهُ بَعْضُ العُلَماءِ ..... وقالَ ابْنُ حَجَرٍ: بِهَذا الحَدِيثِ أخَذَ أئِمَّتُنا فَقالُوا: يَجِبُ أنْ يُفَرَّقَ بَيْنَ الإخْوَةِ والأخَواتِ فَلا يَجُوزُ حِينَئِذٍ تَمْكِينُ ابْنَيْنِ مِنَ الِاجْتِماعِ فِي مَضْجَعٍ واحِدٍ .... والفَرْقِ بَيْنَهُمْ فِي المَضاجِعِ فِي الطُّفُولِيَّةِ تَأْدِيبًا ومُحافَظَةً لِأمْرِ اللَّهِ تَعالى۔ (مرقاۃ المفاتیح : ٢/٥١٢)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
07 رجب المرجب 1443
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں