*مجسموں پر پھول ہار کرنے کا حکم*
سوال :
کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان کرام درمیان مسئلہ ھذا کے کہ ایک مسلمان کا برادران وطن کی ووٹوں کو حاصل کرنے اور ان کو خوش کرنے کیلئے ان کے پیشواؤں کے مجسمہ پر پھولوں کا ہار چڑھانا درست ہے؟ اس شخص کے بارے میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کیا احکامات ہیں؟ مفصّل تحریر فرمائیں۔
(المستفتی : اسماعیل جمالی، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اگر کوئی مسلمان برضا ورغبت اور بشاشت قلبی کے ساتھ غیرمسلموں کا لباس پہنے، غیروں کی مشابہت اختیار کرے، اور ان کے جیسا کام کرے تو وہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔ اس صورت میں تجديدِ ایمان وتجديدِ نکاح کی ضرورت ہوتی ہے۔ البتہ اگر اس عمل کی عظمت دل میں نہ ہو اور دینِ اسلام کی پوری عظمت قلب میں موجود ہو تو اس کے کفر کا فتوی تو نہیں دیا جائے گا، لیکن یہ صورت بھی ناجائز اور حرام ہے۔
صورتِ مسئولہ میں مذکورہ مورتی پر ہار چڑھانے والا مسلمان من تشبہ بقوم فہو منہم کی وعید میں داخل ہوکر فعل حرام کے مرتکب ہوا ہے، جس کی وجہ سے یہ سخت گناہ گار ہوگا۔ لہٰذا اس پر ضروری ہے کہ اس فعلِ قبیح پر ندامت و شرمندگی کے ساتھ سچی پکی توبہ و استغفار کرے۔ تاہم احتیاط ایسی حالت میں یہ ہے کہ کلمہ پڑھ کر تجدید ایمان کرلے اور اللہ رب العزت سے عہد کرلے کہ آئندہ ایسے کاموں کے قریب بھی نہ جاؤں گا۔ اور اس بات کا ہمیشہ خیال رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کو ناراض کرکے بندوں کو خوش نہیں کیا جاسکتا۔ اگر اللہ تعالیٰ کے احکامات کی نافرمانی کرکے بندوں کو خوش کرنے کی کوشش کی گئی تو انجام یہ ہوگا اللہ تعالیٰ تو ناراض ہوں گے ہی اسی کے ساتھ یہ لوگ بھی خوش نہیں ہوں گے۔
کما استفید من عبارۃ الہندیۃ يَكْفُرُ بِوَضْعِ قَلَنْسُوَةِ الْمَجُوسِ عَلَى رَأْسِهِ عَلَى الصَّحِيحِ إلَّا لِضَرُورَةِ دَفْعِ الْحَرِّ وَالْبَرْدِ وَبِشَدِّ الزُّنَّارِ فِي وَسْطِهِ إلَّا إذَا فَعَلَ ذَلِكَ خَدِيعَةً فِي الْحَرْبِ وَطَلِيعَةً لِلْمُسْلِمِينَ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ٢/٢٧٦)
ولو شبہ نفسہ بالیہود والنصاریٰ أی صورۃ أو سیرۃ علی طریق المزاح والہزل أي: ولوعلی ہذا المنوال کفر۔ (شرح الفقہ الأکبر،ص: ۲۲۷، ۲۲۸، فصل في الکفر صریحا وکنایۃ، یاسر ندیم- دیوبند)
وَإِنْ كَانَتْ نِيَّتُهُ الْوَجْهَ الَّذِي يُوجِبُ التَّكْفِيرَ لَا تَنْفَعُهُ فَتْوَى الْمُفْتِي، وَيُؤْمَرُ بِالتَّوْبَةِ وَالرُّجُوعِ عَنْ ذَلِكَ وَبِتَجْدِيدِ النِّكَاحِ بَيْنَهُ وَبَيْنَ امْرَأَتِهِ كَذَا فِي الْمُحِيطِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ٢/٢٨٣)
وقال علیہ السلام : من تشبہ بقوم فہو منہم وفي البذل: قال القاري أي: من شبہ نفسہ بالکفار مثلاً في اللباس وغیرہ أو بالفساق أو الفجار أو بأہل التصوف والصلحاء الأبرار فہو منہم أي في الإثم أو الخیر عند اللہ تعالی۔ (بذل المجہود: ۱۲/ ۵۹ باب في لبس الشہرة)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
21 ربیع الاول 1440
جزاک اللہ خیرا و احسن الجزاء فی الدارین آمین ثم آمین یا رب العالمین
جواب دیںحذف کریںشکریہ و جزاک اللہ خیرا
جواب دیںحذف کریںJazakallah khair
جواب دیںحذف کریںجزاک ماللہ
جواب دیںحذف کریں