سوال :
مکرمی جناب مفتی صاحب! ہمارے بعض ساتھی مریضوں کے بدن کے اعضاء (جوڑوں) کو ان کی اصل جگہ بٹھاتے ہیں، جس سے بہت سی تکلیفوں سے نجات حاصل ہوتی ہے۔ لیکن جوڑوں کے بٹھاتے وقت نہ صرف بدن کے بعض اعضاء کو ہاتھ لگانے کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ بعض اوقات مریضوں کے بدن سے بالکل چپک کر بٹھانا پڑتا ہے۔ خواہ مریض مرد ہو یا عورت؟ اس کے علاوہ کوئی اور طریقہ کار آمد نہیں ہوتا۔ البتہ بعض ساتھی احتیاطاً مریضہ کے بدن پر بڑا اور موٹا تولیہ ڈال کر یہ خدمت انجام دے دیتے ہیں۔ شریعت کی روشنی میں اس بارے میں کہاں تک گنجائش ہے؟ واضح رہے کہ اس کو بون سیٹنگ کہتے ہیں اور یہ کام عورتوں کے بس کا نہیں ہے۔ کافی محنت اور بالکل صحیح ججمنٹ سے کرنے کا ہے۔
(المستفتی : مومن ناظم محمد اسماعیل، بھیونڈی)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نامحرم عورتوں کو ہاتھ لگانا فقہاءِ کرام کے نزدیک بالاتفاق حرام ہے، اس کی دلیل نصوص میں موجود ہے، جیسا کہ طبرانی میں بروایت حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان منقول ہے :
اپنے سر کو لوہے کہ کنگن سے زخمی کرنا بہتر ہے اس بات سے کہ وہ نا محرم خاتون کو چھوئے۔
اس کے علاوہ اور بھی متعدد احادیث میں نامحرم کو چھونے کی ممانعت اور وعید وارد ہوئی ہے۔ البتہ اگر علاج وغیرہ کا معاملہ ہو جس میں نامحرم کو چھوئے اور پکڑے بغیر علاج ممکن نہ ہوتو ایسی مجبوری کے حالات میں ان کو چھونے اور پکڑنے کی اجازت ہوگی۔ تاہم اس صورت میں بھی حتی الامکان اس بات کی احتیاط کی جائے کہ درمیان میں کوئی کپڑا حائل کرلیا جائے جیسا کہ سوال نامہ میں بیان کیا گیا ہے کہ درمیان میں موٹا تولیہ وغیرہ ڈال دیا جاتا ہے۔
عَنْ مَعْقِلُ بْنُ يَسارٍ، قالَ : قالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ : لَأنْ يُطْعَنَ فِي رَأْسِ رَجُلٍ بِمِخْيَطٍ مِن حَدِيدٍ خَيْرٌ لَهُ مِن أنْ يَمَسَّ امْرَأةً لا تَحِلُّ لَهُ۔ (المعجم الکبیر، رقم : ٤٨٧)
الضرورات تبیح المحظورات۔ (الاشباہ والنظائر :۱۴۰)
الاستشفاء بالمحرم إنما لا یجوز إذا لم یعلم أن فیہ شفائً، أما إذا علم أن فیہ شفائً، ولیس لہ دواء آخر غیرہ، فیجوز الاستشفاء بہ۔ (المحیط البرہاني، کتاب الاستحسان، الفصل التاسع عشر في التداوي، ۶؍۱۱۶)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
11 رجب المرجب 1443
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں