جمعرات، 6 جنوری، 2022

علامات قیامت سے متعلق چند تحریروں کا جائزہ

قارئین کرام ! گذشتہ چند مہینوں سے سوشل میڈیا پر قیامت کی نشانیوں بالخصوص ظہور مہدی، خروج دجال اور نزول حضرت عیسٰی علیہ السلام پر متعدد تحریریں، آڈیو اور ویڈیو بیانات کچھ زیادہ ہی گردش میں ہیں۔ پیش نظر مضمون میں اس طرح کی تحریروں، آڈیو اور ویڈیو کا جائزہ لیا جائے گا۔

ایک صاحب کے بیان کے مطابق چالیس پچاس سال کے اندر اندر قیامت آجائے گی، اور انہوں نے اپنے طور سے چند نشانیوں کو بھی گھڑ لیا ہے اور یہ اپنی سمجھ کے مطابق ثابت بھی کردیا ہے کہ فلاں فلاں زلزلہ قیامت کی نشانیوں میں سے ہے، اور فلاں جگہ دھوئیں کا نکلنا بھی قیامت کی ایک نشانی ہوگئی، اور خود انہیں خواب بھی دکھ رہا ہے کہ توبہ کا دروازہ بند ہورہا ہے۔ حالانکہ خود یہ بھی کہتے ہیں کہ خواب حجت نہیں ہوتا، لیکن اس کے باوجود اسے بیان کرکے لوگوں کو تشویش میں مبتلا کررہے ہیں۔ اور تحقیقی بات یہی ہے کہ ان کے بیان کی اکثر باتیں درست نہیں ہیں۔

اسی طرح ایک تحریر وائرل ہے جس میں نمبر وار قیامت کی علامت لکھی ہوئی ہے، جس میں دوسرے نمبر پر ہی لکھا ہوا ہے کہ ہندوؤں کا قتل عام ہوگا؟ محرر سے درخواست ہے کہ وہ بتائیں کہ کس حدیث میں یہ بات لکھی ہوئی ہے؟ جبکہ اس تحریر کے اخیر میں لکھا ہے کہ اس تحریر کو تیار کرنے میں چار سال لگ گئے، اب بھلا آپ ہی بتائیں کہ چند لائنوں کی ایک تحریر لکھنے میں چار سال کیسے لگ گئے؟ وہ بھی املے کی غلطیوں کے ساتھ؟ اس اللہ کے بندے کو چار سال میں چند منٹ بڑھا کر اس پر حوالہ لکھ دینے میں کون سی چیز مانع تھی؟ جب آپ نے تحقیق کی تھی تو ظاہر سی بات ہے آپ نے یہ بات کسی حدیث کی کتاب سے ہی لی ہوگی نا؟ تو پھر آپ نے اس کتاب کا نام کیوں نہیں لکھا؟ چلیے کتاب کا نام نہیں لکھا، خود اپنا نام اور رابطہ نمبر تو تحریر میں لکھ دیتے تاکہ ہم بوقت ضرورت ہمارے اشکالات آپ تک پہنچا کر آپ سے استفادہ کرتے، لیکن انہوں نے ایسا بھی نہیں کیا۔ جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس تحریر سے بجائے آگاہ کرنے کے گمراہ کرنے کا کام کیا گیا ہے۔

ایک تحریر میں کَہِیں کی اِینٹ کَہِیں کا روڑا، بھان مَتِی نے کُنْبَہ جوڑا کے مصداق اِدھر اُدھر کی باتیں جوڑ کر یہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی گئی ہے کہ 2024/2025 میں حضرت مہدی کا ظہور ہوجائے گا۔ اور یہ دو سال مسلمانوں کے لیے بڑی اہمیت کے حامل ہوں گے۔ جس میں مولانا ذوالفقار نقشبندی اور مولانا سجاد نعمانی کی طرف غلط باتیں منسوب کرکے یا پھر اسے توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔ اس تحریر کا بھی اکثر حصہ معتبر نہیں ہے۔

مفتی ابولبابہ شاہ منصور جن کی علامات قیامت پر کئی کتابیں ہیں، ان کی ایک مصدقہ تحریر ملاحظہ فرمائیں جس میں انہوں نے خود اس رجحان کی تردید کی ہے کہ لوگ ظہور مہدی کے سلسلے میں بہت زیادہ دلچسپی لیں۔ آپ لکھتے ہیں کہ : ہم لوگوں میں افراط و تفریط اس حد تک بڑھ گئی ہے  کہ ایک طرف خوش فہم دانشور ہیں جو محض اس بات پر خوش ہیں ہیں کہ امریکہ کم ازکم مذہبی اعتبار سے تو ان کا دشمن نہیں۔

دوسری طرف برادران اسلام کا سب سے دلچسپ مشغلہ یہ رہ گیا ہے کہ حضرت مہدی کا انتظار کریں، ان کی آمد کو کتابوں میں تلاش کریں اور ان کے ظہور کی مدت کا تخمینہ لگا لگا کر کر اس کی صحت کے قرائن بیان کریں۔ یہ اشتیاق اتنا بڑھ چکا ہے کہ اس مرتبہ اگر حج کے موقع پر کوئی الول جلول مجہول سا شخص بھی کھڑا ہوکر مہدویت کا دعوی کر دیتا  تو آدھے حاجی صاحبان نے اسے تسلیم کر ہی لینا تھا۔ حالانکہ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر مہدی ظاہر ہوتے ہیں تو کیا ان کے ساتھ مل کر جہاد کی فضیلت کام چوروں، آرام پسندوں،  گھر بیٹھ کر تماشہ دیکھنے کی عادت بنانے والوں کو حاصل ہوگی؟ یا یہ عظمت اور عزت اجتماعی مقاصد کے لئے قربان دینے والوں اور گناہوں سے توبہ تلافی کرکے اسلام کی سربلندی کے لیے پرعزم لوگوں کے حصے میں آئے گی؟ جن لوگوں کو سستی و کاہلی، بد نظمی و بدعنوانی کی عادت پڑ گئی ہے وہ حضرت کے ظہور کے بعد گھٹنوں کے بل ایسے پڑے رہ جائیں گے جیسے حضرت طالوت کے ساتھ ساتھ جانے والے بنی اسرائیل کے رجائیت پسند عناصر دریائے اردن کا پانی پیٹ بھر کر پیتے ہی بد حال ہو کر  جہاں تہاں گرے پڑے رہ گئے تھے۔۔ ہم لوگوں کے اخلاقی زوال کا یہ حال  ہے کہ اعلی درجے کے دیندار سمجھے جانے والے لوگ بھی کم علمی یا تربیت کے فقدان کے سبب  کسی نہ کسی حوالے سے بدعنوانی کے مرتکب ہیں اور ایسے تو بہت ہی کم ہیں جنہوں نے یہ عہد کر رکھا ہو کہ وہ اپنے علم اور ارادے سے گناہ نہیں کریں گے۔ لیکن ساتھ ہی خوش کن تمناؤں اور خیالی آرزوؤں کی بلند پروازی کا یہ عالم ہے کہ ہر شخص کچھ کیے بغیر حضرت مہدی کے ہاتھ چوم کر سرخرو ہونےاور ان کے جھنڈے کے قریب سے قریب ہو کر شخصیت پرستی کے ارمان نکالنے کا شوق دل میں پالے ہوئے ہے۔ کیا قرون اولی میں مسلمانوں کو کرامات کے طور پر پر فتوحات نصیب ہوئی تھیں؟  اگر نہیں تو آج دنیا پرستی میں میں لت پت ہو کر اس کی تمنا کیسے کی جا سکتی ہے؟ حضرت مہدی کی آمد اپنے وقت پر ہو کر رہے گی، ہمیں سارا کام ان پر چھوڑنے کے بجائے وہ کچھ کرنے کی ضرورت ہے جس کے ہم مکلف و مامور ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کے اعلان جہاد کے وقت ہم امیر کی شرط پوری ہونے کے بعد کسی اور شرط کی تلاش شروع کر دیں جو ہماری بربادی تک پوری ہوکر نہ دے۔

احادیث کی تحقیق کے سلسلے میں مشہور عالم شیخ طلحہ بلال دامت برکاتہم اپنے "النُعَيمِيُّون" نامی ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ : یہ ایک عجیب طرح کا رجحان پھیلتا جارہا ہے کہ دنیا میں جو بھی انقلابات حوادثات پیش آتے ہیں، ان کے بارے بعض لوگ سب سے پہلے نعیم بن حماد کی کتاب الفتن میں روایات تلاش کرتے ہیں، اتفاقاً کچھ مل جاتا ہے تو زبردستی گھسیٹ کر اس کو حالات حاضرہ پر منطبق کرنے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں، اور آسمان زمین کے قلابے ملا کر یہ باور کراتے ہیں کہ روایت سے یہی حادثہ اور فلانا شخص مراد ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فتن واشراط الساعہ کی کتابیں ان کے سرہانے ہی رہتی ہیں، چنانچہ مستقل اس طرح کی بحثوں میں قیاس آرائیاں کرکے اپنے فضول کو تسکین پہنچاتے ہیں، ان کو ہر حادثہ ظہور مہدی کی نشانی اور قرب قیامت کی علامت نظر آتا ہے۔

افسوس کہ بعض سنجیدہ لوگ بھی اس میں مشغول نظر آتے ہیں، اور اس بارے میں تحقیق وتفتیش کو ضروری سمجھتے ہیں، حالانکہ یہ سب فضول اور رجم بالظن ہے۔ بہتر یہ ہے کہ انسان وہ کام کرے جس میں اس کا دنیوی یا اخروی کوئی فائدہ ہو۔ (انتہی)

خلاصہ یہ کہ فی الحال ہمیں علامات قیامت پر دماغ لگانے اور تشویش میں مبتلا ہونے اور کرنے کے بجائے اس بات پر توجہ دینے کی زیادہ ضرورت ہے کہ ہم اپنے آپ کا محاسبہ کریں، اپنے عقائد واعمال کو درست کرنے کی فکر کریں۔ فرائض وواجبات کو جان کر اس پر عمل کرنے والے بنیں۔ اور یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ حضرت مہدی کا ظہور، دجال کا خروج اور حضرت عیسی علیہ السلام کا نزول جب ہونا ہے وہ ہو کر رہے گا۔ اور جب بھی ہوگا ساری دنیا کو اس کا علم ہوجائے گا۔ اس کے لیے پہلے سے قیاس آرائی کرنے اور اندھیرے میں تیر چلانے کی بالکل بھی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ اس طرح کی بے بنیاد قیاس آرائیاں بلاشبہ مہدویت کا جھوٹا دعوی کرنے والوں کو موقع فراہم کرنے کا کام کریں گی۔ لہٰذا ایسی لاوارث تحریروں کو پڑھا ہی نہ جائے اور نہ ہی اسے کہیں شیئر کیا جائے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو کرنے کے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے، منکرات، فضول اور لایعنی باتوں سے ہم سب کی حفاظت فرمائے۔ آمین ثم آمین

8 تبصرے:

  1. انصاری محمود7 جنوری، 2022 کو 10:22 PM

    آمین ثم آمین

    جواب دیںحذف کریں
  2. درست فرمایا آپ نے.
    جزاکم اللہ خیرا و احسن الجزاء

    جواب دیںحذف کریں
  3. ماشاءاللہ۔
    جزاک اللہ خیرا

    جواب دیںحذف کریں
  4. ماشاءاللہ بڑا اچھا لگا پڑھ کر

    جواب دیںحذف کریں
  5. ماشاءاللہ جزاکم اللہ

    جواب دیںحذف کریں
  6. ماشاءاللہ آپ نے بالکل درست تحریر شیر کی ہے اللہ رب العزت ہم سب کو اور پورے عالم کے مسلمانوں کو فضولیات اور خلاف شرع باتوں سے بچاکر شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن و حدیث کی روشنی میں عمل کرنے کی توفیق مرحمت فرمائیں آمین یارب العالمین

    جواب دیںحذف کریں
  7. ماشاء اللہ جزاک اللہ خیرا

    جواب دیںحذف کریں

بوگس ووٹ دینے کا حکم