سوال :
ایک شخص قیام اور رکوع پر قادر ہے لیکن سجدہ اور قعدہ پر قادر نہیں ہے اگر یہ شخص کرسی پر نماز پڑھے گا تو پوری نماز کرسی پر بیٹھ کر پڑھے گا یا قیام اور رکوع کھڑے ہونے کی حالت میں کرے گا؟ جبکہ کھڑے ہونے کی حالت میں صفوں سے باہر ہوجاتا ہے۔ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : حافظ محمد واصف خان، کانپور)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : جو شخص سجدہ پر قدرت نہ رکھتا ہو اس سے قیام کا فریضہ ساقط ہوجاتا ہے۔ اس لیے کہ قیام اور رکوع یہ دونوں سجدہ کے لیے وسیلہ ہیں، اگر کوئی شخص اصل سجدہ سے عاجز ہوجائے تو اس پر اس کے وسیلہ کی فرضیت بھی ساقط ہوجائے گی۔ اب اس کے لئے حکم یہ ہے کہ وہ مکمل نماز زمین پر بیٹھ کر اشارہ سے ادا کرے، لیکن اگر کوئی ایسا عذر لاحق ہو کہ اس کے لیے زمین پر بیٹھنا انتہائی تکلیف دہ ہوتو پھر وہ کرسی پر نماز پڑھ سکتا ہے۔ اس صورت میں بھی وہ مکمل نماز کرسی پر بیٹھ کر اشارہ سے ہی ادا کرے گا، قیام اور رکوع کے وقت بھی کرسی پر بیٹھا رہے گا۔ قیام کے وقت کھڑے رہنا خلافِ اولی ہے۔
دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
چونکہ حقیقی رکوع اور سجدہ آپ سے ساقط ہے اس لیے قیام بھی ساقط ہوگیا اب نماز شروع کرتے وقت ہی کرسی پر بیٹھ جائیں بیٹھ کر ہاتھ باندھ کر قرأت کریں، پھر اشارہ سے رکوع کریں اور اشارہ ہی سے سجدہ کریں۔ (رقم الفتوی : 152420)
من تَعذَّر علیہ القیام لمرض أو خاف زیادتہ أو وجد لقیامہ ألمًا شدیدًا- صلی قاعدًا- کیف شاء- وإن تعذرا لیس تعذرہما شرطًا؛ بل تعذر السجود کاف لا القیام أو قاعدًا؛ لأن رکنیة القیام للتوصلی إلی السجود فلا یجب دونہ- وإن تعذرا لا القیام، أو قاعدًا وہو أفضل من الإیماء قائمًا لقربہ من الأرض۔ (الدر المختار مع رد المحتار: ۲/۵۶۶- ۵۶۸، زکریا)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
26 جمادی الآخر 1443
جزاک اللہ خیرا فی الدارین
جواب دیںحذف کریںبہت اچھی رہنمائی فرمائی
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ۔
جواب دیںحذف کریںجواب سے بہتوں کو نماز کی ادایگی سہل ہوجایگی۔
جزاک اللہ خیرا فی الدارین۔
السلام علیکم مفتی صاحب۔
جواب دیںحذف کریںالسلام علیکم مفتی صاحب
ایک مسئلہ ہے۔
ایک صاحب نے انکے بینک کے سود کی رقم عمر کے پاس بھیجا ہے۔ اور اسے کہیں پر بھی جو اس کے مصرف ہے۔ خرچ کرنے کا مکمل اختیار دیا ہے۔
اب عمر کا شفیع پر قرضہ ہے۔ اور شفیع مستحق ہے۔ وہ لوگوں کا 6/لاکھ کا مقروض ہے۔ مالی استطاعت بھی نہیں ہے۔
کیا ایسی صورت میں عمر، شفیع کو 35/ہزار روپے دے کر جو کے سود کے ہے۔
بعد میں اس سے اپنے قرض کا مطالبہ کر کے واپس لے سکتا ہے۔؟
کیا شفیع، زید سے ادھار 35/ہزار لے کر عمر کو دے، اور پھر عمر شفیع کو وہ سود کی رقم دے، پھر شفیع وہ رقم کا مالک بن کر اب زید کو 35/ہزار والی رقم دے، تو کیا اسطرح کرسکتے ہیں۔؟ 👆🏻
جواب دیںحذف کریں