سوال :
محترم مفتی صاحب امید ہے آپ بخیر ہونگے۔ عرض کرنا تھا کہ میں نے کسی شخص کو کہتے سنا کے جس جگہ پر بازار قائم نہیں ہوتے سونے چاندی اور لوہار کی دوکان نہیں ہوتی وہاں پر جمعہ کی نماز قائم نہیں ہوتی۔ جمعہ کے لیے یہ شرائط ہیں۔ بات اس وجہ سے چلی کے اکثر کھیڑوں اور دیہات پر جمعہ کی نماز ہوتی ہے تو بہت سے گاؤں والے وہاں نماز پڑھنے جاتے ہیں اور ایسی جگہ تو یہ چیزیں نہیں ہوتی جیسے بازار وغیرہ وغیرہ۔ گزارش ہے کے آپ رہنمائی کریں۔ جزاک اللہ خیرا کثیرا
(المستفتی : محمد حارث، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : جمعہ کی نماز جائز ہونے کے لیے مصر یا قصبہ یا قریہ کبیرہ (بڑاگاؤں) ہونا ضروری ہے اور قریۂ کبیرہ وہ گاؤں ہے جس میں گلی کوچے ہوں روز مرہ کی ضروریات کی چیزیں بسہولت وہاں مل جاتی ہوں، قرب و جوار کے چھوٹے گاؤں والے اپنی ضرورت وہیں سے پوری کرتے ہوں، وہاں شرعی پنچائت یا مفتی یا کوئی ایسا با اثر شخص ہو جو روز مرہ کے معمولی جھگڑوں کا فیصلہ کر سکتا ہو، مظلوم کا حق ظالم سے دلواسکتا ہو، ڈاک خانہ وغیرہ ہو۔ سنار اور لوہار کی دوکان ہونا ضروری نہیں، کیونکہ یہ دوکانیں ضروریات میں سے نہیں ہیں۔ ملحوظ رہنا چاہیے کہ جہاں یہ شرائط پائی جائیں وہاں کی آبادی دو ڈھائی ہزار کی ضرور ہوگی یا جہاں ڈھائی تین ہزار افراد ہوں گے وہاں مذکورہ بالا شرائط ضرور پائی جائیں گے۔
درج بالا تفصیلات کی روشنی میں آپ ان دیہاتوں کا معاملہ سمجھ سکتے ہیں، ویسے جن دیہاتوں میں جمعہ ہوتا ہے وہاں عموماً علماء کرام کی رہنمائی کے بعد ہی جمعہ شروع کیا جاتا ہے۔ لہٰذا تشویش میں مبتلا نہ ہوں۔
حَدَّثَنا ابْنُ إدْرِيسَ، عَنْ هِشامٍ، عَنِ الحَسَنِ، ومُحَمَّدٍ، أنَّهُما قالا : الجُمُعَةُ فِي الأمْصارِ۔ (مصنف ابن ابي شیبہ، رقم : ٥٠٦١)
(لا تَصِحُّ الجُمُعَةُ إلّا فِي مِصْرٍ جامِعٍ، أوْ فِي مُصَلّى المِصْرِ، ولا تَجُوزُ فِي القُرى) لِقَوْلِهِ علیہ السلام «لا جُمُعَةَ ولا تَشْرِيقَ ولا فِطْرَ ولا أضْحى إلّا فِي مِصْرٍ جامِعٍ» رَفَعَهُ المُصَنِّفُ، وإنَّما رَواهُ ابْنُ أبِي شَيْبَةَ مَوْقُوفًا عَلى عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ : «لا جُمُعَةَ ولا تَشْرِيقَ ولا صَلاةَ فِطْرٍ ولا أضْحى إلّا فِي مِصْرٍ جامِعٍ أوْ فِي مَدِينَةٍ عَظِيمَةٍ» صَحَّحَهُ ابْنُ حَزْمٍ، وقالَ أبُو حَنِيفَةَ : المِصْرُ بَلْدَةٌ فِيها سِكَكٌ وأسْواقٌ وبِها رَساتِيقُ ووالٍ يُنْصِفُ المَظْلُومَ مِن الظّالِمِ وعالِمٌ يُرْجَعُ إلَيْهِ فِي الحَوادِثِ۔ (فتح القدیر : ٢ /٥٠ - ٥٢)
عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ أَنَّهُ بَلْدَةٌ كَبِيرَةٌ فِيهَا سِكَكٌ وَأَسْوَاقٌ وَلَهَا رَسَاتِيقُ وَفِيهَا وَالٍ يَقْدِرُ عَلَى إنْصَافِ الْمَظْلُومِ مِنْ الظَّالِمِ بِحِشْمَتِهِ وَعِلْمِهِ أَوْ عِلْمِ غَيْرِهِ يَرْجِعُ النَّاسُ إلَيْهِ فِيمَا يَقَعُ مِنْ الْحَوَادِثِ وَهَذَا هُوَ الْأَصَحُّ۔ (شامی : ٢/١٣٧)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
07 جمادی الآخر 1443
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں