پیر، 6 دسمبر، 2021

کیا بدلہ لینے والا کافر ہوتا ہے؟

سوال :

محترم مفتی صاحب ! ہم نے سنا ہے کہ بدلہ لینے والا کافر ہے۔ آپ اس مسئلہ کی وضاحت فرمادیں، مہربانی ہوگی۔
(المستفتی : شاہد لطیف، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : بدلہ لینا شرعاً جائز عمل ہے، بلکہ بدلا لینے کے سلسلے میں قرآن مجید کی سورہ شورٰی کی چند آیات میں مکمل رہنمائی بھی کی گئی ہے۔ لہٰذا ذیل میں یہ آیات اور ان کی تفسیر کا ذکر کی جارہی ہے تاکہ مسئلہ واضح طور پر سمجھ میں آجائے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَالَّذِينَ إِذَا أَصَابَهُمُ الْبَغْيُ هُمْ يَنْتَصِرُونَ (39) وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ (40) وَلَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِ فَأُولَئِكَ مَا عَلَيْهِمْ مِنْ سَبِيلٍ (41) إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (42) وَلَمَنْ صَبَرَ وَغَفَرَ إِنَّ ذَلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ۔ (سورہ شوری)
ترجمہ : اور جب ان پر کوئی زیادتی ہوتی ہے تو وہ اپنا دفاع کرتے ہیں۔ اور کسی برائی کا بدلہ اسی جیسی برائی ہے۔ پھر بھی جو کوئی معاف کردے، اور اصلاح سے کام لے تو اس کا ثواب اللہ نے ذمے لیا ہے۔ یقینا وہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔ اور جو شخص اپنے اوپر ظلم ہونے کے بعد (برابر کا) بدلہ لے تو ایسے لوگوں پر کوئی الزام نہیں ہے۔ الزام تو ان پر ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق زیادتیاں کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے دردناک عذاب ہے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ جو کوئی صبر سے کام لے، اور درگزر کر جائے تو یہ بڑی ہمت کی بات ہے۔ یعنی جب ان پر کوئی ظلم کرتا تو یہ برابر کا انتقام لیتے ہیں۔ اس میں حد مساوات سے تجاوز نہیں کرتے۔

وَالَّذِيْنَ اِذَآ اَصَابَهُمُ الْبَغْيُ هُمْ يَنْتَصِرُوْنَ ۔ یعنی جب ان پر کوئی ظلم کرتا تو یہ برابر کا انتقام لیتے ہیں۔ اس میں حد مساوات سے تجاوز نہیں کرتے، یہ صفت درحقیقت تیسری صفت کی تشریح و تفصیل ہے۔ کیونکہ تیسری صفت کا مضمون یہ تھا کہ یہ لوگ اپنے مخالف کو معاف کردیتے ہیں۔ مگر بعض حالات ایسے بھی پیش آسکتے ہیں کہ معاف کردینے سے فساد بڑھتا ہے تو وہاں انتقام لینا ہی بہتر ہوتا ہے۔ اس کا قانون اس آیت میں بتلا دیا گیا کہ اگر کسی جگہ انتقام لینا ہی مصلحت سمجھا جائے تو اس کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ اس سے انتقام لینے میں برابری سے آگے نہ بڑھیں ورنہ یہ خود ظالم ہوجائیں گے۔ اسی لئے اس کے بعد فرمایا وَجَزٰۗؤُا سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا، یعنی برائی کی جزا اس کے برابر برائی کرنا ہے۔ یعنی جتنا نقصان مالی یا جسمانی کسی نے تمہیں پہنچایا ہے ٹھیک اتنا ہی تم پہنچا دو ۔ جیسی برائی اس نے تمہارے ساتھ کی ہے ویسی ہی تم کرلو مگر اس میں یہ شرط ہے کہ وہ برائی فی نفسہ گناہ نہ ہو۔ مثلاً کسی شخص نے اس کو جبراً شراب پلا دی تو اس کے جواب میں اس کے لئے جائز نہ ہوگا کہ وہ اس کو زبردستی شراب پلا دے۔ (یا کسی نے آپ کے ساتھ فحش گوئی کی ہے تو آپ کا بھی اس کے ساتھ فحش گوئی کرنا جائز نہ ہوگا)

ایک آیت میں اگرچہ برابر کا بدلہ لینے کی اجازت دے دی گئی ہے مگر آگے کی یہ بھی فرما دیا کہ فَمَنْ عَفَا وَاَصْلَحَ فَاَجْرُهٗ عَلَي اللّٰهِ ۭ۔ یعنی جو معاف کر دے اور اصلاح کا راستہ اختیار کرے اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے۔ جس میں یہ ہدایت کردی کہ معاف کردینا افضل ہے۔ اس کے بعد دو آیتوں میں اسی کی مزید تفصیل آئی ہے۔

حضرت ابراہیم نخعی نے فرمایا کہ سلف صالحین یہ پسند نہ کرتے تھے کہ مومنین اپنے آپ کو فساق فجار کے سامنے ذلیل کریں اور ان کی جرأت بڑھ جائے۔ اس لئے جہاں یہ خطرہ ہو کہ معاف کرنے سے فساق فجار کی جرأت بڑھے گی وہ اور نیک لوگوں کو ستائیں گے وہاں انتقام لے لینا بہتر ہوگا اور معافی کا افضل ہونا اس صورت میں ہے جبکہ ظلم کرنے والا اپنے فعل پر نادم ہو اور ظلم پر اس کی جرأت بڑھ جانے کا خطرہ نہ ہو۔ قاضی ابوبکر ابن عربی نے احکام القرآن میں اور قرطبی نے اپنی تفسیر میں اسی کو اختیار کیا ہے کہ عفو و انتقام کے دونوں حکم مختلف حالات کے اعتبار سے ہیں۔ جو ظلم کرنے کے بعد شرمندہ ہوجائے اس سے عفو افضل ہے اور جو اپنی ضد اور ظلم پر اصرار کر رہا ہو اس سے انتقام لینا افضل ہے۔

حضرت اشرف المشائخ (مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ ) نے بیان القرآن میں اس کو اختیار فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں آیتوں میں مومنین، مخلصین اور صالحین کی دو خصوصیتیں ذکر فرمائی ہیں۔ ھم یغفرون۔ میں تو یہ بتلایا کہ یہ غصہ میں مغلوب نہیں ہوتے بلکہ رحم و کرم ان کے مزاج میں غالب رہتا ہے معاف کردیتے ہیں۔ اور ھم ینتصرون میں یہ بتلایا کہ یہ بھی انہیں صالحین کی خصوصیت ہے کہ اگر کبھی ظلم کا بدلہ لینے کا داعیہ ان کے دل میں پیدا بھی ہو اور بدلہ لینے لگیں تو اس میں حق سے تجاوز نہیں کرتے، اگرچہ معاف کردینا ان کے لئے افضل ہے۔

درج بالا تفصیلات سے وضاحت کے ساتھ معلوم ہوگیا کہ شرعی حدود میں رہتے ہوئے بدلہ لینا جائز ہے اگرچہ معاف کردینا افضل ہے۔ لہٰذا اسے کفر کہنا یا سمجھنا بہت بڑا گناہ ہے۔ جن لوگوں نے لاعلمی میں ایسا کہہ دیا ہے انہیں توبہ و استغفار کرتے ہوئے اپنی اصلاح کرلینا چاہیے۔

قال اللّٰہ تعالیٰ : فَمَنِ اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ۔ (البقرۃ، جزء آیت: ۱۹۴/معارف القرآن)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
01 جمادی الاول 1443

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

بوگس ووٹ دینے کا حکم