سوال :
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ کیا حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے وسیلہ سے دعا کرنا جائز ہے؟ اور کسی بزرگ کی قبر پر جا کر ان بزرگ سے جو قبر میں ہیں ان کے وسیلہ سے یہ درخواست کرسکتے کہ آپ گناہوں سے پاک ہیں آپ ہمارے لیے دعا کریں، ایسا کرنا کیسا ہے؟
(المستفتی : حافظ اعجاز احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : کسی نبی یا ولی کے وسیلہ سے دعا کرنے کی ایک صورت یہ ہے کہ یا اللہ! میرا تو کوئی عمل ایسا نہیں جس کو میں آپ کی بارگاہِ عالی میں پیش کرکے اس کے وسیلے سے دعاکروں، البتہ فلاں بندہ آپ کی بارگاہ میں مقبول ہے اور مجھے اس سے محبت وعقیدت کا تعلق ہے، پس اے اللہ ! آپ اس تعلق کی لاج رکھتے ہوئے، جو مجھے آپ کے نیک بندوں سے ہے، میری یہ درخواست قبول فرمالیجئے، یہ صورت جائز ہے۔ بشرطیکہ یہ عقیدہ نہ رکھا جائے کہ توسل کے بغیر دعا کی جائے، تو اللہ تعالیٰ اس کو سنتے ہی نہیں، اور نہ یہ عقیدہ رکھاجائے کہ انبیاء واولیاء وسیلہ سے جو دعا کی جاتی ہے، اس کا ماننا اللہ تعالیٰ کے ذمہ لازم ہوجاتا ہے، بلکہ یہ سمجھنا چاہیے کہ ان مقبولان الٰہی کی محبت کے طفیل سے جودعا کی جائے گی،تو توسل بالاعمال الصالحہ کی وجہ سے اس کی قبولیت کی زیادہ اُمید ہے۔
دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
اہل السنت والجماعت بشمول علمائے دیوبند کا عقیدہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیاء ، اولیاء اور مشائخ کے وسیلے سے دعا کرنا جائز ہے، ان کی زندگی میں بھی اور ان کی وفات کے بعد بھی، مثلاً یہ کہے کہ اے اللہ میں فلاں بزرگ کے وسیلے سے آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ میری دعا قبول فرمالیں اور میری ضرورت پوری فرمادیں، چنانچہ ”المہند علی المفند “ میں ہے : عندنا وعند مشایخنا یجوز التوسل في الدعوات بالأنبیاء والصالحین من الأولیاء والشہداء والصالحین في حیاتہم وبعد وفاتہم بأن یقول في دعائہ اللہم إني أتوسل إلیک بفلان أن تجیب دعوتي وتقضي حاجتي إلی غیر ذالک الخ ․․(المہند علی المفند، ص: ۴) اس سلسلے میں سب سے صریح دلیل حضرت عثمان بن حنیف کی روایت ہے جسے ترمذی نے اپنی ”سنن“ میں اور طبرانی نے ”المعجم الکبیر“ میں روایت کی ہے، ترمذی کی روایت کا حاصل یہ ہے کہ عثمان بن حنیف فرماتے ہیں کہ ایک نابینا صحابی تھے انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ آپ دعا کردیجئے کہ میری بینائی ٹھیک ہوجائے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری مرضی ہوتو دعا کردوں اور اگر چاہو تو صبر اختیار کرو اور صبر تمہارے لئے زیادہ بہتر ہے تو حضرت عثمان بن حنیف نے فرمایا کہ اے اللہ کے رسول! آپ دعا ہی کردیجئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھی طرح وضو کرو اور یہ دعا کرو: اللہم إنی أسئلک وأتوجہ إلیک بنبیک محمد نبي الرحمة إني توجہت بک إلی ربي في حاجتي ہذہ لتقضي لي، اللہم فشفعہ فيّ یعنی اے اللہ! میں آپ سے سوال کرتا ہوں اور آپ کی طرف آپ کے نبی رحمت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے متوجہ ہوتا ہوں، (اے نبی) میں آپ کے توسل سے اپنے رب کی طرف متوجہ ہوا؛ تاکہ میری اس ضرورت کو پورا کردیا جائے، اے اللہ! تو میرے حق میں ان کی شفارش قبول فرما۔ (ترمذی، رقم : ۳۵۵۸) اور طبرانی کی روایت میں ہے کہ حضرت عثمان غنی کے عہدخلافت میں ایک شخص کسی ضرورت سے ان کے پاس کئی مرتبہ حاضر ہوا اور آپ متوجہ نہیں ہوئے، لہٰذا حضرت عثمان بن حنیف نے اس کو وہ دعا سکھلائی جو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نابینا کو سکھلائی تھی جیسا کہ ترمذی کی روایت سے اوپر مذکور ہوا۔ مزید تفصیل کے لئے دیکھیں : روح المعانی، ۳/۳۹۷، مائدة ط: بیروت/رقم الفتوی : 67590)
وسیلہ کی دوسری صورت : بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ چونکہ ہم لوگوں کی رسائی خدائے تعالیٰ کے دربار تک نہیں ہوسکتی، اس لیے ہمیں جو درخواست کرنی ہو، اس کے مقبول بندوں کے سامنے پیش کریں اور جو کچھ مانگنا ہو، ان سے مانگیں، چنانچہ یہ لوگ اپنی مراد اولیاء اللہ سے مانگتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ یہ اکابر باعطائِ الٰہی ان کی مرادیں پوری کرنے پر قادر ہیں، میں نے خواجہ بہاؤ الحق زکریا ملتانی، خواجہ فریدالدین گنج شکر، سلطان الہند خواجہ نظام الدین اولیاء اور دیگر اکابر اولیاء اللہ قدس اللہ اسرارہم کے مزارات پر لوگوں کوان بزرگوں سے دعائیں مانگتے دیکھا ہے۔ یہ صورت حرام اور شرک ہے۔
وسیلہ کی تیسری صورت : وسیلہ پکڑنے کی ایک صورت یہ ہوسکتی ہے کہ براہِ راست بزرگوں سے تو اپنی حاجت نہ مانگی جائے، البتہ ان کی خدمت میں یہ گذارش کی جائے کہ وہ حق تعالیٰ کے دربار میں ہماری حاجت ومراد پوری ہونے کی دعا فرمائیں، وسیلہ کی یہ صورت بھی قرآن وحدیث سے ثابت نہیں، بلکہ تعاملِ امت کے خلاف ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے۔ (مستفاد : فتاوی ریاض العلوم : ١/١٣٠)
امید ہے کہ درج بالا دلائل کی روشنی میں آپ کو یہ مسئلہ مکمل طور سمجھ گیا ہوگا، نیز سوال نامہ میں آپ نے بزرگانِ دین سے متعلق جو صورت بیان کی ہے وہ وسیلہ کی تیسری صورت کے مطابق ہے جو جائز نہیں ہے۔
عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ كَانَ إِذَا قَحَطُوا اسْتَسْقَى بِالْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَقَالَ : اللَّهُمَّ إِنَّا كُنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَسْقِينَا، وَإِنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِعَمِّ نَبِيِّنَا، فَاسْقِنَا. قَالَ : فَيُسْقَوْنَ۔ (صحیح البخاري، رقم : ٣٧١٠)
عَنْ عُثْمَانَ بْنِ حُنَيْفٍ أَنَّ رَجُلًا ضَرِيرَ الْبَصَرِ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ : ادْعُ اللَّهَ أَنْ يُعَافِيَنِي، قَالَ : إِنْ شِئْتَ دَعَوْتُ، وَإِنْ شِئْتَ صَبَرْتَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ ". قَالَ : فَادْعُهْ، قَالَ : فَأَمَرَهُ أَنْ يَتَوَضَّأَ، فَيُحْسِنَ وُضُوءَهُ، وَيَدْعُوَ بِهَذَا الدُّعَاءِ : " اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ، وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّكَ مُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ، إِنِّي تَوَجَّهْتُ بِكَ إِلَى رَبِّي فِي حَاجَتِي هَذِهِ لِتُقْضَى لِيَ اللَّهُمَّ فَشَفِّعْهُ فِيَّ۔ (سنن الترمذی، رقم : ٣٥٧٨)
وَقَالَ السُّبْكِيُّ: يَحْسُنُ التَّوَسُّلُ بِالنَّبِيِّ إلَى رَبِّهِ وَلَمْ يُنْكِرْهُ أَحَدٌ مِنْ السَّلَفِ وَلَا الْخَلَفِ إلَّا ابْنَ تَيْمِيَّةَ فَابْتَدَعَ مَا لَمْ يَقُلْهُ عَالِمٌ قَبْلَهُ۔ (شامی : ٦/٣٩٧)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
16 جمادی الاول 1443
جزاک اللہ خیرا کثیرا مفتی محترم
جواب دیںحذف کریںمنجانب ڈاکٹر فروغ عابد
ماشاء الله
جواب دیںحذف کریں