پیر، 6 دسمبر، 2021

اولاد کی غیر موجودگی میں بیوی کا حصہ؟

سوال :

کیا فرماتے ہیں علمائے دین مفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ زید کا انتقال ہوا ہے اور اس کی ایک بیوی ہے اور کوئی اولاد نہیں ہے، زید کے پانچ بھائی اور تین بہنیں ہیں، جن میں سے ایک بھائی کا انتقال زید کی زندگی میں ہوگیا تھا۔ زید کے انتقال کے بعد مزید تین بھائیوں کا انتقال ہوگیا، اب صرف ایک بھائی اور تین بہنیں حیات ہیں، نیز والدین کا بھی زید کی زندگی میں انتقال ہوچکا ہے۔ شریعتِ مطہرہ کی روشنی میں جواب مرحمت فرما کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : محمد احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورتِ مسئولہ میں مرحوم زید پر اگر قرض ہوتو اس کی ادائیگی یا وصیت ہوتو تہائی مال سے اسے ادا کرنے کے بعد جو مال بچے گا اس کے 44 حصے کیے جائیں گے۔

چونکہ مرحوم زید کی کوئی اولاد نہیں ہے، لہٰذا بیوی کو اولاد کی غیر موجودگی میں کل مال کا چوتھائی حصہ یعنی 11 حصے ملیں گے۔

زید کے والدین کا بھی زید کی زندگی میں انتقال ہوچکا ہے، لہٰذا بہن بھائی عصبہ بنیں گے۔ اور بقیہ مال اُن بہن بھائیوں کے درمیان للذكر مثل حظ الانثیین (ایک بھائی کو دو بہنوں کے برابر) کے تحت تقسیم ہوگا جو زید کے انتقال کے وقت حیات تھے۔ چنانچہ ان میں سے ایک بھائی کو 06 حصے ملیں گے اور ایک بہن کو 03 تین حصے ملیں گے۔ اور یہ کل چار بھائی اور تین بہنیں ہیں۔ ایک بھائی کا انتقال زید کی زندگی میں ہوچکا تھا، لہٰذا اسے کوئی حصہ نہیں ملے گا۔ جن بھائیوں کا انتقال زید کے انتقال کے بعد ہوا ہے ان کا حصہ ان کی اولاد کے درمیان شریعت کے اصولوں کے مطابق تقسیم ہوگا۔

قال اللہ تعالیٰ : وَلَہُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکْتُمْ اِنْ لَمْ یَکُنْ لَکُمْ وَلَدٌ، فَاِنْ کَانَ لَکُمْ وَلَدٌ فَلَہُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَکْتُمْ۔ (سورۃ النساء، جزء آیت : ۱۲)

وقال اللّٰہ تعالیٰ : یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْ اَوْلَادِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ۔ (سورۃ النساء، جزء آیت : ۱۱)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
01 جمادی الاول 1443

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

بوگس ووٹ دینے کا حکم