سوال :
محترم مفتی صاحب ! زید کا کہنا ہے کہ دوران سفر مغرب وعشاء کی قصر نماز ایک ساتھ پڑھ سکتے ہیں، جبکہ عشاء کا وقت ابھی ہوا ہی نہیں ہے تو مغرب کی نماز کے وقت میں کیا مغرب وعشاء کی قصر نماز پڑھی جاسکتی ہے؟ مدلل جواب عنایت فرمائیں تاکہ زید کی اصلاح کی جاسکے۔
(المستفتی : عبدالرشید، بمبئی)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : دو نمازوں کو ایک وقت میں پڑھنے کو جمع بین الصلوتین کہتے ہیں۔ اور احناف کے نزدیک کسی عذر کے سبب بھی جمع بین الصلوتین جائز نہیں ہے۔
قرآنِ کریم کی آیاتِ مبارکہ اور احادیثِ شریفہ سے قطعی طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ نمازوں کو ان کے وقتِ مقررہ پر ادا کرنا ضروری ہے، اور ان میں تقدیم و تاخیر جائز نہیں ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں ہے :
اِنَّ الصَّلوٰةَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتَابًا مَّوْقُوْتًا۔ (النساء : ۱۰۳)
ترجمہ : بے شک نماز مسلمانوں پر وقت مقررہ کے ساتھ فرض ہے۔
نیز شریعت میں ہر نماز کی ابتدا کا وقت بھی مقرر ہے اور اس کے ختم ہونے کا بھی وقت مقرر ہے، چاہے وہ فجر ہو، یا ظہر ہو، یاعصر ہو، یامغرب ہو، یا عشاء ہو، یا جمعہ ہو۔ اس لیے احناف کے نزدیک دو فرض نمازوں کو ایک وقت میں جمع کرنا نہ مقیم کے لیے جائز ہے اور نہ ہی مسافر کے لیے۔
البتہ حج کے موقع پر مزدلفہ میں عشاء کے وقت میں مغرب وعشاء، اور عرفہ میں ظہر کے وقت میں ظہر اور عصر کی نماز جمع کرنا آپ ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت ہے، اس کے علاوہ کسی موقع پر نماز کو وقت داخل ہونے سے پہلے ادا کرنا یا بغیر عذر کے وقت گزرنے کے بعد ادا کرنا ثابت نہیں ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
مَنْ جَمَعَ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ مِنْ غَيْرِ عُذْرٍ فَقَدْ اَتٰى بَابًا مِنْ أَبْوَابِ الْكَبَائِرِ۔ (سنن الترمذي، باب ماجاء في الجمع بین الصلاتین في الحضر:۱۸۸)
ترجمہ : جس آدمی نے بغیر عذر کے دو نمازوں کو (ایک ہی وقت میں) جمع کیا (پڑھا) وہ کبیرہ گناہوں کے دروازوں میں سے ایک دروازے پر پہنچ چکا۔
اس حدیث میں نبی کریم ﷺ نے دو نمازوں کو ایک ہی وقت میں پڑھنے کو گناہِ کبیرہ قرار دیا ہے، ظاہر ہے کہ جو عمل گناہِ کبیرہ ہو وہ کیسے جائز ہوسکتا ہے؟
البتہ بعض احادیث سے دو نمازوں کے جمع کرنے کا بظاہر معلوم ہوتا ہے جن کی بنا پر شوافع نے مسافرکے لیے جمع بین الصلاتین کی اجازت دی ہے، احناف نے دیگر روایات کی بناء پر ان احادیث کے دو جواب دیئے ہیں :
1) ایک جواب یہ ہے کہ جن روایات میں صراحتاً وقت سے پہلے یا وقت کے بعد نماز ادا کرنے کا ذکر ہے، وہ قرآنِ مجید اور ان صحیح احادیث سے متعارض ہیں جن میں نمازوں کے اوقات مقرر کیے گئے ہیں، کیوں کہ قرآنِ مجید میں نماز کو اس کے وقتِ مقررہ پر ادا کرنے کا حکم دیا گیاہے، اور اس حدیث میں وقت سے پہلے یا وقت کے بعد دو نمازوں کو ایک ساتھ پڑھنے کا ذکر ہے، اور ظاہر ہے کہ قرآن اور حدیث میں ٹکراؤ ہوتو قرآن کو ترجیح دی جاتی ہے، نیز دیگر احادیث جو نمازوں کو اوقات کے علاوہ ادا کرنے کی ممانعت پر دلالت کرتی ہیں ان سے بھی ٹکراؤ کی صورت میں ان کثیر وصحیح روایات کو ترجیح دی جائے گی، اس لیے ظہر اور عصرکی نماز کا جو وقت مقرر ہے، اور مغرب وعشاء کی نماز کا جو وقت مقرر ہے، اسی پر عمل کیا جائے گا، اور نمازیں اسی وقت میں ادا کرنا ضروری ہوگا، اور دو نمازوں کو جمع کرنے والی روایات کو ترک کردیا جائے گا۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ ان روایات میں جمع کرنے سے صورتاً جمع کرنا مراد ہے، حقیقتاً نہیں۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ مغرب کی نماز اتنی دیر سے پڑھی جائے کہ اس کا وقت ختم ہونے لگے، جیسے ہی مغرب کی نماز سے فراغت ہو، کچھ دیر انتظار کیا جائے، پھر جب عشاء کا وقت شروع ہوجائے تو عشاء بھی پڑھ لی جائے، اس صورت میں مغرب اپنے وقت میں پڑھی جائے گی،اور عشاء اپنے وقت میں پڑھی جائے گی۔ لیکن بظاہر ایسا محسوس ہوگا کہ دونوں ایک ہی ساتھ پڑھی گئیں۔ آپﷺ نے دو نمازوں کو اس طرح جمع فرمایا تو راویوں نے کہہ دیا کہ آپ نے دو نمازوں کو جمع فرمایا ہے، جب کہ اس کی حقیقت کچھ اور ہی تھی، جیسا کہ تفصیلی روایات میں اس کی وضاحت ملتی ہے۔ چنانچہ عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :
رَاَيْتُ رَسُوْلَ الله ﷺ إِذَا أَعْجَلَهُ السَّيْرُ فِي السَّفَرِ يُؤَخِّرُ صَلاَةَ الْمَغْرِبِ حَتّٰى يَجْمَعَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ صَلاَةِ الْعِشَاءِ۔ (الصحیح لمسلم، باب جواز الجمع بين الصلاتين في السفر:۱۶۵۹)
میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا کہ جب آپ کو سفر پر جانے میں عجلت ہوتی تو مغرب کی نماز کو مؤخر کرتے یہاں تک کہ مغرب اور عشاء کو جمع فرماتے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
كَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ إِذَا ارْتَحَلَ قَبْلَ أَنْ تَزِيْلَ الشَّمْسُ أَخَّرَ الظُّهْرَ إِلٰى وَقْتِ الْعَصْرِ ثُمَّ نَزَلَ فَجَمَعَ۔ (الصحیح لمسلم، باب جواز الجمع بين الصلاتين في السفر،۱۶۵۹)
رسول اللہﷺ جب سورج کے زائل ہونے سے قبل سفر فرماتے تو ظہر کو مؤخرفرماتے عصر تک، پھر (سواری سے) اترتے، اور دونوں نمازوں کو جمع فرماتے۔
ان روایات سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کا دو نمازوں کو جمع فرمانا صورتاً تھا، حقیقتاً نہیں، جس کی وضاحت ماقبل میں کی جاچکی ہے۔ چنانچہ اگر ہم ان روایات کو جمع صوری پر محمول کرتے ہیں تو تمام آیات اور روایات میں کوئی تعارض نہیں ہوتا ہے،اور اگر حقیقت پر محمول کرتے ہیں تو پھر آیاتِ مبارکہ اور کثیر احادیثِ صحیحہ مبارکہ کو ترک کرنا لازم آتا ہے، اس لیے اس کو جمع صوری پر محمول کیا جائے گا۔تاکہ قرآن اور حدیث پر مکمل طور پر عمل ہو، اور ان میں باہم تضاد اورٹکراؤ نہ ہو۔
خلاصہ یہ کہ ہر نماز کو اس کے وقت میں ادا کرنا ضروری ہے، احناف کے نزدیک سفر میں بھی دو نمازیں ایک وقت میں جمع کرنا جائز نہیں ہے، ہاں ضرورت کے موقع پر صورتاً دو نمازوں کو جمع کیا جاسکتا ہے، مثلاً مغرب کی نماز کو مؤخر کرکے آخری وقت میں پڑھ لیا جائے اور عشاء کو ابتدائی وقت میں۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں زید کی بات درست نہیں ہے، اسے اپنی بات سے رجوع کرنا چاہیے۔
(ولا جمع بين فرضين في وقت بعذر) سفر ومطر خلافاً للشافعي، وما رواه محمول على الجمع فعلاً لا وقتاً (فإن جمع فسد لو قدم) الفرض على وقته (وحرم لو عكس) أي أخره عنه (وإن صح) بطريق القضاء (إلا لحاج بعرفة ومزدلفة)۔
(قوله: وما رواه) أي من الأحاديث الدالة على التأخير كحديث أنس: «أنه صلى الله عليه وسلم كان إذا عجل السير يؤخر الظهر إلى وقت العصر فيجمع بينهما، ويؤخر المغرب حتى يجمع بينها وبين العشاء»۔ وعن ابن مسعود مثله۔ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين : 1/381)
ومن الأحاديث الدالة على التقديم وليس فيها صريح سوى حديث أبي الطفيل عن معاذ: «أنه عليه الصلاة والسلام كان في غزوة تبوك إذا ارتحل قبل زيغ الشمس أخر الظهر إلى العصر فيصليهما جميعاً، وإذا ارتحل قبل زيغ الشمس صلى الظهر والعصر ثم سار، وكان إذا ارتحل قبل المغرب أخر المغرب حتى يصليها مع العشاء، وإذا ارتحل بعد المغرب عجل العشاء فصلاها مع المغرب. (قوله: محمول إلخ) أي ما رواه مما يدل على التأخير محمول على الجمع فعلاً لا وقتاً: أي فعل الأولى في آخر وقتها والثانية في أول وقتها، ويحمل تصريح الراوي بخروج وقت الأولى على التجوز كقوله تعالى :﴿ فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ ﴾ [البقرة: 234] أي قاربن بلوغ الأجل أو على أنه ظن، ويدل على هذا التأويل ما صح عن ابن عمر: « أنه نزل في آخر الشفق فصلى المغرب ثم أقام العشاء وقد توارى الشفق، ثم قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا عجل به السير صنع هكذا.» " وفي رواية ": ثم انتظر حتى غاب الشفق وصلى العشاء "، كيف وقد قال صلى الله عليه وسلم: «ليس في النوم تفريط، إنما التفريط في اليقظة، بأن تؤخر صلاة إلى وقت الأخرى». رواه مسلم، وهذا قاله وهو في السفر. وروى مسلم أيضاً عن ابن عباس «أنه صلى الله عليه وسلم جمع بين الظهر والعصر والمغرب والعشاء بالمدينة من غير خوف ولا مطر، لئلا تحرج أمته». وفي رواية: «ولا سفر». والشافعي لا يرى الجمع بلا عذر، فما كان جوابه عن هذا الحديث فهو جوابنا. وأما حديث أبي الطفيل الدال على التقديم فقال الترمذي فيه: إنه غريب، وقال الحاكم: إنه موضوع، وقال أبو داود: ليس في تقديم الوقت حديث قائم، وقد أنكرت عائشة على من يقول بالجمع في وقت واحد. وفي الصحيحين عن ابن مسعود : « والذي لا إله غيره ما صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة قط إلا لوقتها إلا صلاتين جمع بين الظهر والعصر بعرفة، وبين المغرب والعشاء بجمع». " ويكفي في ذلك النصوص الواردة بتعيين الأوقات من الآيات والأخبار، وتمام ذلك في المطولات، كالزيلعي وشرح المنية. وقال سلطان العارفين سيدي محيي الدين نفعنا الله به: والذي أذهب إليه أنه لا يجوز الجمع في غير عرفة ومزدلفة؛ لأن أوقات الصلاة قد ثبتت بلا خلاف، ولا يجوز إخراج صلاة عن وقتها إلا بنص غير محتمل؛ إذ لاينبغي أن يخرج عن أمر ثابت بأمر محتمل، هذا لا يقول به من شم رائحة العلم، وكل حديث ورد في ذلك فمحتمل أنه يتكلم فيه مع احتمال أنه صحيح، لكنه ليس بنص اهـكذا نقله عنه سيدي عبد الوهاب الشعراني في كتابه الكبريت الأحمر في بيان علوم الشيخ الأكبر۔ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين : (1/382)
مستفاد : فتوی دارالافتاء جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن، رقم الفتوی : 144012201492)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
06 جمادی الاول 1443
السلام علیکم مفتی صاحب سوال عرض یہ ہے کہ کچھ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو نبی کا درجہ دینے کی کوشش کرتے ہیں
جواب دیںحذف کریںوعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
حذف کریںایسے لوگ مسلمان ہی نہیں ہیں۔
واللہ تعالٰی اعلم
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
جواب دیںحذف کریںجمع بین الصلاتین
اگر سفر میں ہوں اورمغرب کچھ تاخیر سے ادا کیےاور عشاء شوافع کے اول وقت میں ادا کریں تو یہ صورت درست ہوگی ؟وضاحت فرمادیں جزاکم اللہ
ماشاء اللہ خوب جواب
جواب دیںحذف کریں