سوال :
درج ذیل حدیث شریف کی تشریح مطلوب ہے۔
حضرت ابو سعید خدری ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن ساری زمین ایک روٹی کی طرح ہوجائے گی جسے اللہ تعالیٰ اہل جنت کی میزبانی کے لیے اپنے ہاتھ سے الٹے پلٹے گا جس طرح تم دستر خوان پر روٹی لہراتے پھراتے ہو۔ پھر ایک یہودی آیا اور بولا: ابوالقاسم! تم پر رحمن برکت نازل کرے کیا میں تمہیں قیامت کے دن اہل جنت کی سب سے پہلی ضیافت کے بارے میں خبر نہ دوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا، کیوں نہیں۔ تو اس نے (بھی یہی) کہا کہ ساری زمین ایک روٹی کی طرح ہوجائے گی جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا۔ پھر نبی کریم ﷺ نے ہماری طرف دیکھا اور مسکرائے جس سے آپ کے آگے کے دانت دکھائی دینے لگے۔ پھر (اس نے) خود ہی پوچھا کیا میں تمہیں اس کے سالن کے متعلق خبر نہ دوں؟ (پھر خود ہی) بولا کہ ان کا سالن بالام ونون. ہوگا۔ صحابہ ؓ نے کہا کہ یہ کیا چیز ہے؟ اس نے کہا کہ بیل اور مچھلی جس کی کلیجی کے ساتھ زائد چربی کے حصے کو ستر ہزار آدمی کھائیں گے۔ (بخاری)
(المستفتی : خلیل احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ارسال کردہ حدیث بلاشبہ درست ہے اور امام بخاری ومسلم رحمھما اللہ دونوں نے اسے روایت کیا ہے۔ اس حدیث شریف کی تشریح میں حضرت شاہ عبدالعزيز محدث دہلوی کے نواسے نواب محمد قطب الدین خان دہلوی رحمھما اللہ نے جو کچھ فرمایا ہے اسے یہاں من وعن نقل کیا جارہا ہے۔
اپنے ہاتھوں سے اس طرح الٹے پلٹے گا" کے ذریعہ اس طرف اشارہ ہے کہ جس طرح روٹی پکانے والا شخص روٹی گھڑنے والا اس کو گول ( برابر اور باریک کرنے کے لئے اس کو ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ پر پھیرتا ہے پھر توے یا گرم بھوبل پر اس کو الٹ پلٹ کر سینکتا ہے اسی طرح یہ زمین بھی الٹی پلٹی جائے گی اور اس کو روٹی بنا دیا جائے گا۔ واضح رہے کہ حدیث کے ظاہری الفاظ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے دن یہ روٹی ہو جائے گی اور جنت میں جانے والوں کا کھانا بنے گی کہ وہ جنت میں جانے کے وقت پہلے اس کو کھائیں گے۔
پس حضرات نے حدیث کے الفاظ کو ان کے ظاہرمعنی ہی پر محمول کیا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ یہ بات حق تعالیٰ کی قدرت سے بعید نہیں ہے وہ اس پر قادر ہے کہ اس زمین کو روٹی بنا دے اور اہل جنت کو کھانے کے لئے دے۔ لہٰذا زیادہ صحیح یہی ہے کہ حدیث کا یہی ظاہری مفہوم مراد لیا جائے اور اس بارے میں کسی شک وشبہ کو اندر آنے کا موقع نہ دیا جائے۔ ویسے کچھ حضرات نے حدیث کے ان مذکورہ الفاظ کو اس کے ظاہری معنی پر حمل نہ کرکے تاویل وتوجیہ کا راستہ اختیار کیا ہے، لیکن ان کی ان تاویلات وتوجیہات کو طوالت کے خوف سے ذکر نہیں کیا جار ہا ہے۔
آنحضرت ﷺ نے ہماری طرف دیکھا اور ہنس دیئے " اس یہودی عالم نے جو کچھ بیان کیا وہ تورات میں پڑھ کر بیان کیا تھا اور اس کی وہ باتیں گویا آنحضرت ﷺ کی بتائی ہوئی باتوں کی تصدیق کرتی تھیں علاوہ ازیں وہ باتیں صحابہ کرام کے یقین اور قوت ایمان میں اضافہ کا سبب بنی تھیں اس لئے آنحضرت ﷺ ان پر اظہار اطمینان کے لئے ہنسے اور اس طرح ہنسے کہ آپ ﷺ کی ظاہر ہوگئیں۔
ستر ہزار آدمی" سے مراد وہ بندگان خاص ہیں جو حساب ومؤاخذہ کے مراحل سے گزرے بغیر جنت میں جائیں گے اور جن کے چہرے چودھویں کے چاند کی طرح روشن وتابناک ہوں گے اور ہوسکتا ہے کہ "ستر ہزار" سے مخصوص عدد مراد نہ ہو بلکہ محض کثرت مبالغہ مراد ہو۔
زائدہ کبد" (یعنی جگر کا زائد حصہ) اصل میں جگر ہی کے اس چھوٹے ٹکڑے کو کہتے ہیں جو اسی کے ساتھ ایک جانب ہوتا ہے اس حصہ کو بہت لذیذ اور پسندیدہ سمجھا جاتا ہے۔
ایک احتمال یہ ہے کہ صحابہ کرام کے پوچھنے پر " بالام ونون " کے جو معنی بیان کئے گئے وہ اس یہودی عالم نے نہیں بلکہ خود آنحضرت ﷺ نے بیان کئے ہوں اور یہ ہو کہ جب صحابہ اس لفظ کے معنی نہ سمجھے اور انہوں نے اس بارے میں سوال کیا تو اس سے پہلے کہ یہودی عالم جواب دیتا آنحضرت ﷺ کو بذریعہ وحی اس عبرانی لفظ کے معنی بتا دیئے گئے اور آپ ﷺ نے صحابہ کے سامنے بیان فرما دئیے۔ (مظاہر حق جدید : ٥/١١٢)
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَكُونُ الْأَرْضُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ خُبْزَةً وَاحِدَةً يَتَكَفَّؤُهَا الْجَبَّارُ بِيَدِهِ كَمَا يَكْفَأُ أَحَدُكُمْ خُبْزَتَهُ فِي السَّفَرِ نُزُلًا لِأَهْلِ الْجَنَّةِ، فَأَتَى رَجُلٌ مِنَ الْيَهُودِ، فَقَالَ: بَارَكَ الرَّحْمَنُ عَلَيْكَ يَا أَبَا الْقَاسِمِ، أَلَا أُخْبِرُكَ بِنُزُلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، قَالَ: بَلَى، قَالَ: تَكُونُ الْأَرْضُ خُبْزَةً وَاحِدَةً كَمَا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَظَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْنَا، ثُمَّ ضَحِكَ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ، ثُمَّ قَالَ: أَلَا أُخْبِرُكَ بِإِدَامِهِمْ، قَالَ: إِدَامُهُمْ بَالَامٌ وَنُونٌ، قَالُوا: وَمَا هَذَا ؟ قَالَ: ثَوْرٌ وَنُونٌ يَأْكُلُ مِنْ زَائِدَةِ كَبِدِهِمَا سَبْعُونَ أَلْفًا۔ (صحیح البخاری، رقم : ٦٥٢٠)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
23 جمادی الاول 1443
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں