سوال :
مفتی صاحب بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم بچے کو اس لیے حافظ نہیں بناتے ہیں کہ وہ قرآن بھلا دیگا اور اس کو عذاب ہوگا۔ مفتی صاحب احادیث میں جو وعید آئی ہے وہ حفظ بھلانے پر ہے یا ناظرہ بھلانے پر؟ وضاحت فرمائیے۔
(المستفتی : حافظ عارف، شری رامپور)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : قرآن مجید کو یاد کرکے بھلادینے پر جو وعید مشہور ہے پہلے ان احادیث کو ملاحظہ فرمائیں۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : میری امت کے کاموں کے ثواب میرے سامنے پیش کئے گئے یہاں تک کہ کسی شخص کا مسجد سے کوڑا کرکٹ نکالنے کا ثواب بھی اور اسی طرح میری امت کے گناہ بھی میرے سامنے پیش کئے گئے تو ان گناہوں میں سے کوئی گناہ اس سے بڑھ کر نہ تھا کہ کوئی شخص قرآن کی سورۃ یا آیت پڑھ کر بھلا دے۔ (١)
حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص قرآنِ کریم پڑھ کر بھول جائے تو وہ قیامت کے دن اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اس کا ہاتھ کٹا ہوا/کوڑھی ہونے کی حالت میں ہوگا۔ (٢)
معلوم ہونا چاہیے کہ ان احادیث کو شارحین حدیث نے اس بات پر محمول کیا ہے کہ کوئی شخص قرآن کریم یاد کرنے کے بعد اس سے ایسا غافل ہوجائے کہ اسے دیکھ کر بھی پڑھنا نہ آئے تب وہ اس وعید میں داخل ہوگا۔
مفتی محمد سلمان منصورپوری لکھتے ہیں :
عورتوں کے لئے بھی قرآن کا حفظ کرنا اسی طرح درست ہے جس طرح مردوں کے لئے، اور جب حفظ کرلیا تو یاد رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے، لیکن اگر کوئی لڑکی کوشش کے باوجود یاد نہ کرسکے، تو اس پر کوئی گناہ نہیں، اور احادیث میں قرآن کو یاد کرکے بھولنے پر جو وعیدیں آئی ہیں، ان کا تعلق اس صورت سے ہے جب کہ آدمی غفلت اور کوتاہی کی بناء پر ناظرہ پڑھنے پر بھی قادر نہ رہے۔ (کتاب النوازل : ٢/١٧٢)
لیکن اس کا یہ مطلب بالکل نہیں ہے کہ قرآن مجید یاد کرکے بھلا دینا کوئی گناہ کی بات نہیں ہے۔ بلکہ ایسا کرنا قرآن کریم کی بڑی نا قدری اور ایک نعمت عظمیٰ کی ناشکری ہے اور ناشکری پر قرآن مجید میں وعید آئی ہے کہ وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ یعنی اگر تم کفران نعمت اور ناشکری کروگے تو میرا عذاب سخت ہے۔ لہٰذا قرآن کریم یاد کرنے کے بعد غفلت اور لاپرواہی کی وجہ سے اسے بھلا دینا سخت گناہ کی بات ہے۔ لیکن اگر پڑھتے رہنے کے باوجود یا مرض کی وجہ سے کوئی قرآن بھول جائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : عُرِضَتْ عَلَيَّ أُجُورُ أُمَّتِي حَتَّى الْقَذَاةُ يُخْرِجُهَا الرَّجُلُ مِنَ الْمَسْجِدِ، وَعُرِضَتْ عَلَيَّ ذُنُوبُ أُمَّتِي فَلَمْ أَرَ ذَنْبًا أَعْظَمَ مِنْ سُورَةٍ مِنَ الْقُرْآنِ أَوْ آيَةٍ أُوتِيَهَا رَجُلٌ ثُمَّ نَسِيَهَا۔ (سنن ابی داؤد، رقم : ٤٦١)
عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَا مِنِ امْرِئٍ يَقْرَأُ الْقُرْآنَ ثُمَّ يَنْسَاهُ، إِلَّا لَقِيَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَجْذَمَ۔ (سنن ابی داؤد، رقم : ١٤٧٤)
قال رسول الله ﷺ : ما من امرئ يقرأ القرآن ثم ينساه) أي بالنظر عندنا۔ (بذل المجہود : ٢/١٩٠)
إذَا حَفِظَ الْإِنْسَانُ الْقُرْآنَ ثُمَّ نَسِيَهُ فَإِنَّهُ يَأْثَمُ، وَتَفْسِيرُ النِّسْيَانِ أَنْ لَا يُمْكِنُهُ الْقِرَاءَةُ مِنْ الْمُصْحَفِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ٥/٣١٧)
(ما من امرئ يقرأ القرآن) يحتمل بحفظه عن ظهر قلب ويحتمل يتعود قراءته نظرا في المصحف أو تلقينا ويدل للأول بل يعنيه قوله (ثم ينساه إلا لقى الله يوم القيامة) وهو (أجذم)۔ (فیض القدیر : ۵/٤٧٢)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
11 جمادی الاول 1443
جزاک اللہ خیرا و احسن الجزاء مفتی صاحب
جواب دیںحذف کریںJazaakALLAH mufti sahab
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ خیرا و احسن الجزاء
جواب دیںحذف کریں