سوال :
محترم مفتی صاحب ! آج ایک نکاح کی تقریب میں شرکت کا موقع ملا، 11 بجے کا وقت تھا، ایک دولہا اور اسکے باراتی آ کر مسجد میں انتظار کرتے رہے ساڑھے گیارہ بج گیا، معلوم ہوا کہ دوسرا دولہا جو کہ بڑی بہن کے ساتھ تھا ابھی تک نہیں پہنچا، کچھ لوگ بضد تھے کہ پہلے بڑا آئے اور اس کا نکاح ہو بعد میں چھوٹے کا، تب چھوٹے دولہا کے والد نے زور دے کر کہا کہ چھوٹے کا نکاح پڑھا دو اور ہمیں روانہ کرو، لوگوں کو دوسرے پروگراموں میں بھی جانا ہے، تب جاکر چھوٹے دولہا کا نکاح پڑھایا گیا اور اسی دوران بڑے میاں (دولہا) تشریف لائے۔ اور انکا نکاح پڑھایا گیا۔
سوال یہ ہے کہ کیا شریعت میں اس عمل کی گنجائش ہے کہ پہلے بڑے کا بعد میں چھوٹے کا؟ آجکل چلن بن چکا ہے کہ پہلے بڑے کا نکاح ہوگا بعد میں چھوٹے کا۔ آپ سے گزارش ہے کہ اس موضوع پر روشنی ڈالیں۔
(المستفتی : عمران الحسن، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : دو بہنوں کا بیک وقت نکاح ہو اور ان کی بارات بھی ایک وقت میں مسجد پہنچ جائے تو پہلے بڑی بہن کا نکاح ہوجائے پھر چھوٹی بہن کا نکاح ہوتو اس میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے، بلکہ ایسے موقع پر بڑے کو ترجیح دینا اچھا عمل ہے۔ لیکن ایسا کرنا شرعاً ضروری نہیں ہے۔ لہٰذا اگر پہلے چھوٹی بہن کی بارات آجائے تو اس کا نکاح پڑھاکر اس بارات والوں کو رخصت کردینا چاہیے، بڑی بہن کی بارات کے انتظار میں چھوٹی بہن کا نکاح نہ پڑھانا اور چھوٹے دولہے کے ساتھ آنے والے باراتیوں کو انتظار کی تکلیف سے گزارنا ایذائے مسلم کی وجہ سے ناجائز اور گناہ کی بات ہے۔ لہٰذا لڑکی والوں کو اس کا خیال رکھنا چاہیے کہ ایک سنت کی ادائیگی کے وقت دوسرا ناجائز اور گناہ کا کام نہ ہو جو خدانخواستہ نکاح میں بے برکتی کا سبب بن جائے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ النَّاسُ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ، وَالْمُؤْمِنُ مَنْ أَمِنَهُ النَّاسُ عَلَى دِمَائِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ۔ (سنن النسائی، رقم : ۴۹۹۵)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
21 جمادی الاول 1443
اللہ پاک آپ کے علم وعمل میں برکت عطا فرمائے
جواب دیںحذف کریںجزاکم اللہ خیرا و احسن الجزاء
جواب دیںحذف کریں