سوال :
مفتی صاحب! درج ذیل حدیث پر عمل کے بارے میں کیا شکل ہے؟ کیا اس پر عمل درآمد کر سکتے ہیں؟
سیدنا عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! شیطان میری نماز میں حائل ہو گیا اور مجھ کو قرآن بھلا دیتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس شیطان کا نام خنزب ہے جب تجھے اس شیطان کا اثر معلوم ہو تو اللہ کی پناہ مانگ اس سے اور بائیں طرف تین بار تھوک۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا : میں نے ایسا ہی کیا پھر اللہ نے اس شیطان کو مجھ سے دور کر دیا۔
(المستفتی : شیخ زبیر، پونے)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : آپ کی ارسال کردہ روایت مسلم شریف میں موجود ہے۔ البتہ علماء نے اس کی مختلف توجیہات کی ہیں جیسا کہ مشہور حنفی فقیہ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کا تعلق اس وسوسہ سے ہے جو نماز شروع کرنے سے پہلے ہوتا ہو، لہٰذا جس شخص نے نماز شروع نہیں کی اس کو اگر وسوسہ آجائے تو وہ اعوذ باللہ پڑھ کر بائیں طرف تین مرتبہ تھتکار دے۔
ایک توجیہ یہ کی گئی ہے کہ یہ حکم اس وقت تھا جب نماز میں باتیں کرنا جائز تھا، پھر یہ حکم منسوخ ہوگیا۔
ایک توجیہ شارحین حدیث نے یہ بیان کی ہے کہ یہ حکم اس نمازی کو ہے جو نماز سے فارغ ہوچکا ہو، یعنی نماز سے فارغ ہوکر یہ عمل کرلے کہ شیطان سے بدلہ ہوجائے اور آئندہ نماز میں تنگ نہ کرے۔
لہٰذا نماز میں اگر وسوسہ آئے تو اس کا علاج یہ ہے کہ اس کی طرف توجہ نہ دی جائے، اور اللہ کی عظمت اور جلال کا تصور کرتے ہوئے نماز پوری کی جائے اور یہ تصور کیا جائے کہ میں اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہوں یا وہ مجھے دیکھ رہا ہے، اور ہر رکن کے سنن و آداب کا خیال رکھے۔ لیکن اس کے باوجود اگر وسوسہ باقی رہے تو اسے دور کرنے کے لیے "اعوذ بالله" زبان سے نہ پڑھے، بلکہ دل ہی دل میں پڑھ لینے کی گنجائش ہوگی، تاہم اگر کوئی وسوسہ دور کرنے کے لیے زبان سے پڑھ لے تو اس کی نماز فاسد نہ ہوگی، نیز تھوکنے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن اگر کوئی اس طرح تھوک دے کہ دیکھنے والوں کو گمان ہو کہ یہ نماز نہیں پڑھ رہا ہے تو یہ عملِ کثیر ہوجائے گا جس سے نماز فاسد ہوجائے گی۔
عَنْ أَبِي الْعَلَاءِ أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ أَبِي الْعَاصِ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ الشَّيْطَانَ قَدْ حَالَ بَيْنِي وَبَيْنَ صَلَاتِي وَقِرَاءَتِي، يَلْبِسُهَا عَلَيَّ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " ذَاكَ شَيْطَانٌ يُقَالُ لَهُ : خِنْزَبٌ، فَإِذَا أَحْسَسْتَهُ فَتَعَوَّذْ بِاللَّهِ مِنْهُ، وَاتْفِلْ عَلَى يَسَارِكَ ثَلَاثًا ". قَالَ : فَفَعَلْتُ ذَلِكَ، فَأَذْهَبَهُ اللَّهُ عَنِّي۔ (صحیح المسلم، رقم : ٢٢٠٣)
(«قالَ : قُلْتُ يا رَسُولَ اللَّهِ! إنَّ الشَّيْطانَ قَدْ حالَ بَيْنِي، وبَيْنَ صَلاتِي، وبَيْنَ قِراءَتِي») أيْ : يَمْنَعُنِي مِنَ الدُّخُولِ فِي الصَّلاةِ، أوْ مِنَ الشُّرُوعِ فِي القِراءَةِ بِدَلِيلِ تَثْلِيثِ التَّفْلِ، وإنْ كانَ فِي الصَّلاةِ، ولْيَتْفُلْ ثَلاثَ مَرّاتٍ غَيْرَ مُتَوالِياتٍ، ويُمْكِنُ حَمْلُ التَّفْلِ والتَّعَوُّذِ عَلى ما بَعْدَ الصَّلاةِ، والمَعْنى جَعَلَ بَيْنِي وبَيْنَ كَمالِهِما حاجِزًا مِن وسْوَسَتِهِ المانِعَةِ مِن رُوحِ العِبادَةِ، وسِرِّها، وهُوَ الخُشُوعُ والخُضُوعُ۔ (مرقاۃ المفاتیح : ١/١٤٦)
وَلَوْ حَوْقَلَ لِدَفْعِ الْوَسْوَسَةِ إنْ لِأُمُورِ الدُّنْيَا تَفْسُدُ لَا لِأُمُورِ الْآخِرَةِ۔ (شامی : ١/٦٢١)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
24 جمادی الاول 1443
جزاکم اللہ خیرا مفتی صاحب
جواب دیںحذف کریںاللہ تعالی پہلے فقہاء و محدثین پر اور ان کے جانشینوں پر یعنی آپ علماء پر رحم فرمائے۔۔۔آمین
جواب دیںحذف کریںجزاکم اللہ
جواب دیںحذف کریںبر وقت رہنمائی ھوئی، دل سے شکریہ