سوال :
ایک دیہات میں عیدگاہ تھی، جگہ کی تنگی کی وجہ سے کچھ سالوں بعد ایک وسیع عیدگاہ بنائی گئی، تو کیا پرانی عیدگاہ بیچ سکتے ہیں؟ اگر بیچ سکتے ہیں تو اسکی رقم کو عیدگاہ کی ہی مد میں لگایا جائے یا کس مد میں لگا سکتے ہیں؟ مدلل رہنمائی فرمائیں نوازش ہوگی۔
(المستفتی : حافظ شہباز داعی، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : وقف کی املاک کا فروخت کرنا جائز نہیں ہے۔ اس لیے کہ یہ چیز وقف کرنے والے کی ملکیت سے نکل کر اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں چلی جاتی ہے۔
دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
وقف تام ہونے کے بعد وقف کی موقوفہ جائداد کو فروخت کرنا شرعاً جائز نہیں ہے، قال المرغیناني : إذا صح الوقف لم یجز بیعہ ولا تملیکہ (الہدایة: کتاب الوقف، شروط الوقف) وقال في الفتاوی المہدیة: الوقف بعد صدورہ صحیحا لازما لا یقبل التملک والتملیک (۴۰/۴۵۴) اس لیے صورتِ مسئولہ میں گاوٴں کے کچھ ممبران کا مذکورہ عیدگاہ کو زید کے ہاتھ فروخت کرنا از روئے شرع ناجائز ہے، زید کے ذمہ ضروری ہے کہ وہ مذکورہ زمین واپس کرکے ان ممبران سے اپنی ادا کردہ رقم وصول کرے اور مذکورہ زمین اگر نمازِ عید کے لیے ضرورت نہ ہو تو پنجگانہ نماز کے طور پر استعمال کی جاسکتی ہے۔ (رقم الفتوی : 47924)
صورتِ مسئولہ میں جبکہ عیدگاہ کی زمین وقف کی ہوئی ہے تو اس کا فروخت کرنا جائز نہیں ہے۔ البتہ یہ صورت اختیار کی جاسکتی ہے کہ سب مسلمان مل کر اس جگہ دینی مدرسہ قائم کردیں تاکہ اس کا وقف بحالہ باقی رہے، یا کسی دینی مدرسہ کے ہاتھ اسے فروخت کردیں اور اہل مدرسہ اس میں مدرسہ ہی کا کام لیں، اور اس کا پیسہ نئی عیدگاہ میں خرچ کردیا جائے یا پھر اس میں مسجد تعمیر کردی جائے تو یہ بھی جائز ہے۔ مسجد ومدرسہ قائم کرنا اس لیے جائز ہے کہ جس طرح عیدگاہ وقف ہے اسی طرح مسجد اور مدرسہ بھی وقف ہے۔
اور اگر یہاں مسجد یا مدرسہ بنانے کی ضرورت نہ ہو اور اس بات کا قوی اندیشہ ہو کہ زمین اسی طرح چھوڑ دینے سے اس پر دوسروں کا قبضہ ہوجائے گا تو پھر وقف کی املاک کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے مجبوراً اسے فروخت کرنے کی گنجائش ہوگی، لیکن اس سے پہلے مقامی یا اطراف کے جید علماء کرام کو پوری نوعیت بتاکر آگے کی کارروائی کی جائے۔
لَو أن مَقْبرَة من مَقابِر المُسلمين عفت فَبنى قوم عَلَيْها مَسْجِدا لم أر بذلك بَأْسا، وذَلِكَ لِأن المَقابِر وقف من أوقاف المُسلمين لدفن موتاهم لا يجوز لأحد أن يملكها، فَإذا درست واسْتغْنى عَن الدّفن فِيها جازَ صرفها إلى المَسْجِد، لِأن المَسْجِد أيْضا وقف من أوقاف المُسلمين۔ (عمدۃ القاری : ٤/١٧٩)
وَنُقِلَ فِي الذَّخِيرَةِ عَنْ شَمْسِ الْأَئِمَّةِ الْحَلْوَانِيِّ أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ مَسْجِدٍ أَوْ حَوْضٍ خَرِبَ، وَلَا يَحْتَاجُ إلَيْهِ لِتَفَرُّقِ النَّاسِ عَنْهُ هَلْ لِلْقَاضِي أَنْ يَصْرِفَ أَوْقَافَهُ إلَى مَسْجِدٍ أَوْ حَوْضٍ آخَرَ : فَقَالَ : نَعَمْ۔ (شامی : ۴/۳۵۹)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
20 جمادی الاول 1443
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں