سوال :
اطلبوالعلم من المہد الی اللحد
اس طرح کی کوئی حدیث شریف ہے یا نہیں؟ تحقیق مطلوب ہے۔
(المستفتی : عبدالرحمن انجینئر، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : شرعی حدود میں رہتے ہوئے علم نافع حاصل کرنا بلاشبہ شرعاً پسندیدہ عمل ہے۔ اور یہ اللہ تعالٰی کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ لیکن علم حاصل کرنے کی اہمیت بیان کرتے ہوئے یہ بات جو کہی جاتی ہے کہ "علم حاصل کرو گود سے گور تک" تو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ حدیث نہیں ہے۔ بلکہ اقوال زرین میں سے ہے۔ لہٰذا اس کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف کرکے بیان کرنا جائز نہیں ہے۔ اور یہاں ایک ضابطہ یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ ہر حدیث عمدہ، حق اور سچ ضرور ہوتی ہے لیکن ہر اچھی اور حق بات حدیث نہیں ہوتی، جیسا کہ ماضی قریب کے جید اور محقق عالم شیخ عبدالفتاح ابوغدہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مشہور کتاب "قیمۃ الزمن عند العلماء" میں حافظ ابو الحجاج حلبی مزی کے حوالہ سے لکھا ہے۔
هذا الكلام : (طلب العلم من المهد إلى اللحد) ويحكى أيضا بصيغة (اطلبوا العلم من المهد إلى اللحد): ليس بحديث نبوي، وإنما هو من كلام الناس، فلا تجوز إضافته إلى رسول الله ﷺ كما يتناقله بعضهم، إذ لا ينسب إلى رسول الله ﷺ إلا ما قاله أو فعله أو أقره.
وكون هذا الكلام صحيح المعنى في ذاته وحقا في دعوته: لا يسوغ نسبته إلى النبي ﷺ، قال الحافظ أبو الحجاج الحلبي المزي: «ليس لأحد أن ينسب حرفا يستحسنه من الكلام إلى رسول الله ﷺ، وإن كان ذلك الكلام في نفسه حقا، فإن كل ما قاله الرسول ﷺ حق، وليس كل ما هو حق قاله الرسول ﷺ».
انتهى من كتاب «ذيل الموضوعات» للحافظ السيوطي ص ٢٠٢.
وهذا الحديث الموضوع : (اطلبوا العلم من المهد إلى اللحد) مشتهر على الألسنة كثيرا، ومن العجب أن الكتب المؤلفة في (الأحاديث المنتشرة) لم تذكره۔ (قیمۃ الزمن عند العلماء : ٣٠)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
16 جمادی الاول 1443
ماشاءاللہ بہت خوب تحقیق
جواب دیںحذف کریںعر بی
جواب دیںحذف کریں